اس شہر میں اب آئنہ سامانی کرو ہو

اس شہر میں اب آئنہ سامانی کرو ہو
تم جس پہ ازل سے ہی حکمرانی کرو ہو


اک عرصہ ہوا کوچۂ جاناں ہوا ویران
پھر بھی تم اسی شہر کی نگرانی کرو ہو


پھول اگتے تھے جس جا وہیں اگ آئیں ہیں کانٹے
کیا ایسے گلستاں کی نگہبانی کرو ہو


ہر بات سر بزم بھلا کرتا ہے کوئی
کیوں اپنے ہی جذبات کی عریانی کرو ہو


پڑ جائیں ہیں افکار میں شبہات کی گرہیں
جب بات بھی تم صورت یزدانی کرو ہو


دکھلاؤ ہو امید کو موہوم سی اک لو
سوئے ہوئے جذبات میں طغیانی کرو ہو


دشمن پہ بھی تم چشم کرم رکھو ہو اپنی
کس شان سے تم اس کی بھی مہمانی کرو ہو


کیا بات ہے کیوں بدلے ہوئے رکھو ہو تیور
کیوں میرے ہر اک لفظ کو عصیانی کرو ہو


اٹھ جائیں جو اس در سے بتاؤ تو کہاں جائیں
کیا فیصلہ حق میں مرے عرفانی کرو ہو


ہستی غم دوراں میں مٹا دو ہو تم اپنی
پھر دل کو فقط نذر پشیمانی کرو ہو


حیران ہے الفت کہ اس اسلوب پہ اسریٰؔ
کیا روکو ہو کاہے کی فراوانی کرو ہو