سنا ہے چاندنی راتوں میں اکثر تم
خموشی سے دبے پاؤں بھری محفل سے اٹھتے ہو کھلے آکاش کے نیچے کہیں پر بیٹھ جاتے ہو پھر اپنا ہاتھ ہولے سے بڑھاتے ہو چمکتے چاند کی جانب کبھی تو مسکراتے ہو کبھی کچھ گنگناتے ہو جو میرؔ و دردؔ کی غزلیں کبھی ہم کو سناتے تھے وہی سرگوشیاں مجھ سے جو اکثر کرتے رہتے تھے ہوا کے دوش پر بیٹھی کرن ...