اسریٰ رضوی کی نظم

    سنا ہے چاندنی راتوں میں اکثر تم

    خموشی سے دبے پاؤں بھری محفل سے اٹھتے ہو کھلے آکاش کے نیچے کہیں پر بیٹھ جاتے ہو پھر اپنا ہاتھ ہولے سے بڑھاتے ہو چمکتے چاند کی جانب کبھی تو مسکراتے ہو کبھی کچھ گنگناتے ہو جو میرؔ و دردؔ کی غزلیں کبھی ہم کو سناتے تھے وہی سرگوشیاں مجھ سے جو اکثر کرتے رہتے تھے ہوا کے دوش پر بیٹھی کرن ...

    مزید پڑھیے

    سنو نا جاناں

    یہ لوگ مجھ کو بتا رہے ہیں ہماری آنکھیں بہت ہیں روشن یہ برق جیسی چمک رہیں ہیں کہ جگنوں کی تڑپ رکی ہو ہے بے قراری غزال جیسی خمار کی سی ہے کیفیت بھی دھنک کے جتنے بھی رنگ ہوں گے ہماری آنکھوں میں بس گئے ہیں مگر اے جاناں انہیں بتاؤں میں کس طرح سے یہ جگمگاتی یہ جھلملاتی سی میری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2