عزم
یاد نے اپنے پنکھ پھر سے کھول لیے
ایک نئی اڑان کے لیے
دور بہت دور
فلک کے اس کونے پر
جہاں ایک ایسی بستی ہے
جس کی فضا میں انگنت
رنگین نظارے بکھرے
ہوئے ہیں
جن کو صرف چھو کے
روح ان بلندیوں کا
سفر طے کرتی ہے
جس کی آس مجھے بھی ہے
اور تمہیں بھی
آؤ میرے ساتھ
میں تمہیں
وہ سرگوشیاں سناؤں
کبھی تم نے میرے کانوں میں
بہت دھیرے اور
بہت دھیرے سے کی تھیں
میں نے جنہیں
بہت سنبھال رکھا ہے
اور ان تمام لمحوں کو
سینوں میں قید کرکے
سمندر کے خوب صورت
نیلگوں پانی کی
تھاہ میں چھپا دیا ہے
تاکہ کوئی بھی آنکھ
چھو نہ سکے
اور مجھ سے چھین کر
نہ لے جا سکے
تم بھی نہیں
ایسا پھر نہیں ہوگا
کیونکہ
اب میں ایسا
ہونے نہیں دوں گا