اسلم محمود کی غزل

    دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے

    دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے منہ تکا کرتا ہے ہر دم مرا حیرانی سے لوگ دریاؤں پہ کیوں جان دیئے دیتے ہیں تشنگی کا تو تعلق ہی نہیں پانی سے اب کسی بھاؤ نہیں ملتا خریدار کوئی گر گئی ہے مری قیمت مری ارزانی سے خود پہ سو جبر کئے دل کو بہت سمجھایا راس آئی کہاں دنیا ہمیں آسانی سے اب یہ ...

    مزید پڑھیے

    جل رہا ہوں تو عجب رنگ و سماں ہے میرا

    جل رہا ہوں تو عجب رنگ و سماں ہے میرا آسماں جس کو سمجھتے ہو دھواں ہے میرا لے گئی باندھ کے وحشت اسے صحرا کی طرف ایک دل ہی تو تھا اب وہ بھی کہاں ہے میرا دیکھ لے تو بھی کہ یہ آخری منظر ہے مرا جس کو کہتے ہیں شفق رنگ زیاں ہے میرا اپنا ہی زور تنفس نہ مٹا دے مجھ کو ان دنوں زد پہ مری خیمۂ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں مجھ سے گریزاں ہے میں تیرا مقدر ہوں

    کیوں مجھ سے گریزاں ہے میں تیرا مقدر ہوں اے عمر رواں خوش ہوں میں تجھ کو میسر ہوں میں آپ بہار اپنی میں اپنا ہی منظر ہوں خود اپنے ہی خوابوں کی خوشبو سے معطر ہوں بے رنگ نہ واپس کر اک سنگ ہی دے سر کو کب سے ترا طالب ہوں کب سے ترے در پر ہوں جب جیسی ضرورت ہو بن جاتا ہوں ویسا ہی خود اپنی ...

    مزید پڑھیے

    کیا گردشوں کے حوالے اسے چاک پر رکھ دیا

    کیا گردشوں کے حوالے اسے چاک پر رکھ دیا کہ بننے بگڑنے کا ہر فیصلہ خاک پر رکھ دیا مجھے قصر تعبیر کی اس نے سب کنجیاں سونپ دیں مگر چھین کر خواب آنکھوں سے افلاک پر رکھ دیا سوا راکھ ہونے کے اب کوئی چارہ بچا ہی نہیں شرار ہوس کس نے یہ میرے خاشاک پر رکھ دیا کوئی ہے جو گرداب غم سے بچائے ...

    مزید پڑھیے

    رنگ سارے اپنے اندر رفتگاں کے ہیں

    رنگ سارے اپنے اندر رفتگاں کے ہیں ہم کہ برگ رائیگاں نخل زیاں کے ہیں شیشۂ عمر رواں سے خوف آتا ہے عکس اس میں ساعت کم مہرباں کے ہیں ہم کو کیا لا حاصلی ہی عشق میں گر ہے ہم تو خوگر یوں بھی کار رائیگاں کے ہیں تیرے کوچے کی ہوا پوچھے ہے اب ہم سے نام کیا ہے کیا نسب ہے ہم کہاں کے ہیں ہم کو ...

    مزید پڑھیے

    نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں

    نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں مزاج زندگی یکسر بدلنا چاہتا ہوں میں زمیں تیری کشش نے روک رکھا ہے مجھے ورنہ حدود خاک سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں نمو کا جوش ٹھوکر مارتا رہتا ہے سینے میں لہو کا چشمہ ہوں کب سے ابلنا چاہتا ہوں میں گزرتے جا رہے ہیں قافلے تو ہی ذرا رک ...

    مزید پڑھیے

    نہ ملال ہجر نہ منتظر ہیں ہوائے شام وصال کے

    نہ ملال ہجر نہ منتظر ہیں ہوائے شام وصال کے ہم اسیر اپنی ہی ذات کے کسی خواب کے نہ خیال کے مرے شوق سیر و سفر کو اب نئے اک جہاں کی نمود کر ترے بحر و بر کو تو رکھ دیا ہے کبھی کا میں نے کھنگال کے وہ ہمیں تھے جن کے کمال کی ہے یہ کائنات بھی معترف وہی ہم کہ آج تماش بیں ہوئے خود ہی اپنے زوال ...

    مزید پڑھیے

    پتھروں پر وادیوں میں نقش پا میرا بھی ہے

    پتھروں پر وادیوں میں نقش پا میرا بھی ہے راستوں سے منزلوں تک سلسلہ میرا بھی ہے پاؤں اس کے بھی نہیں اٹھتے مرے گھر کی طرف اور اب کے راستہ بدلا ہوا میرا بھی ہے حبس کے عالم میں بھی زندہ ہوں تیری آس پر اے ہوائے تازہ دروازہ کھلا میرا بھی ہے بادلوں سے اے زمیں تو ہی نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    سراب معنی و مفہوم میں بھٹکتے ہیں

    سراب معنی و مفہوم میں بھٹکتے ہیں کچھ ایسے لفظ جو شاید ازل سے پیاسے ہیں سماعتوں کو ابھی یوں ہی منتظر رکھنا پس غبار خموشی ہزار نغمے ہیں اندھیرے کتنے ہی سفاک ہوں کہ ظالم ہوں مگر چراغ کی ننھی سی لو سے ڈرتے ہیں یہ کس خیال کی لو سے لپٹ رہی ہے ہوا یہ کس کی یاد کے سائے سے تھرتھراتے ...

    مزید پڑھیے

    تو اپنے شہر طرب سے نہ پوچھ حال مرا

    تو اپنے شہر طرب سے نہ پوچھ حال مرا مجھے عزیز ہے یہ کوچۂ ملال مرا ابھی تو ہونا ہے اک رقص بے مثال مرا دیئے کی لو سے ابھی دیکھنا وصال مرا وہ درد ہوں کوئی چارہ نہیں ہے جس کا کہیں وہ زخم ہوں کہ ہے دشوار اندمال مرا تو کیا یہ وقت یونہی روندتا رہے گا مجھے ڈراتا رہتا ہے مجھ کو یہی سوال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3