نہ ملال ہجر نہ منتظر ہیں ہوائے شام وصال کے
نہ ملال ہجر نہ منتظر ہیں ہوائے شام وصال کے
ہم اسیر اپنی ہی ذات کے کسی خواب کے نہ خیال کے
مرے شوق سیر و سفر کو اب نئے اک جہاں کی نمود کر
ترے بحر و بر کو تو رکھ دیا ہے کبھی کا میں نے کھنگال کے
وہ ہمیں تھے جن کے کمال کی ہے یہ کائنات بھی معترف
وہی ہم کہ آج تماش بیں ہوئے خود ہی اپنے زوال کے
جو نواح جاں میں مقیم ہیں انہیں موسموں کا طلسم ہے
کبھی جام اچھالے نشاط کے کبھی رنگ اڑائے ملال کے
وہی صبح و شام کے مرحلے وہی خال و آب کے سلسلے
وہی قصے نان و نمک کے ہیں وہی جھگڑے مال و منال کے
ترا آئینہ ہوں میں زندگی ترے عکس کا میں امین ہوں
ہے مری شکست ترا زیاں مجھے رکھ بچا کے سنبھال کے
مرے کار زار حیات میں نہ کوئی نجیب نہ کم نسب
یہاں نام صرف ہنر کا ہے یہاں چرچے بس ہیں کمال کے
نہیں گردشوں میں جو وقت کی ہو عطا وہ ساعت ماورا
نہ تو ابتدا ہو نہ انتہا نہ ہوں سلسلے مہ و سال کے