رنگ سارے اپنے اندر رفتگاں کے ہیں

رنگ سارے اپنے اندر رفتگاں کے ہیں
ہم کہ برگ رائیگاں نخل زیاں کے ہیں


شیشۂ عمر رواں سے خوف آتا ہے
عکس اس میں ساعت کم مہرباں کے ہیں


ہم کو کیا لا حاصلی ہی عشق میں گر ہے
ہم تو خوگر یوں بھی کار رائیگاں کے ہیں


تیرے کوچے کی ہوا پوچھے ہے اب ہم سے
نام کیا ہے کیا نسب ہے ہم کہاں کے ہیں


ہم کو کیا ارض و سما کے سب خزانوں سے
ہم تو عاشق ایک اسم جاوداں کے ہیں


میرے پرتو نے طلسم تیرگی توڑا
اور اب روشن مناظر خاکداں کے ہیں


ہم کو کیا موج فنا سے خوف آئے گا
منتظر ہم خود زوال رنگ جاں کے ہیں


امتحاں یہ سختیاں یہ گردشیں اسلمؔ
سب اشارے ایک چشم مہرباں کے ہیں