اسلم محمود کی غزل

    میں ہجو اک اپنے ہر قصیدے کی رد میں تحریر کر رہا ہوں

    میں ہجو اک اپنے ہر قصیدے کی رد میں تحریر کر رہا ہوں کہ آپ اپنے سے ہوں مخاطب خود اپنی تحقیر کر رہا ہوں کہاں ہے فرصت نشاط و غم کی کہ خود کو تسخیر کر رہا ہوں لہو میں گرداب ڈالتا ہوں نفس کو شمشیر کر رہا ہوں مری کہانی رقم ہوئی ہے ہوا کے اوراق منتشر پر میں خاک کے رنگ غیر فانی کو اپنی ...

    مزید پڑھیے

    ہم وہ آوارہ کہ جو دشت نہ گھر کے لئے ہیں

    ہم وہ آوارہ کہ جو دشت نہ گھر کے لئے ہیں جانے پھر کون سی دنیائے دگر کے لئے ہیں جبر موسم کے ہیں جتنے بھی شجر کے لئے ہیں ان کو کیا اس سے جو بیتاب ثمر کے لئے ہیں رونقیں بھی تو بجھا دیتی ہیں آنکھیں اکثر کچھ نظارے ہیں کہ قاتل جو نظر کے لئے ہیں راس آتی ہے بھلا ان کو کہاں نان جویں لوگ ...

    مزید پڑھیے

    عکس جل جائیں گے آئینے بکھر جائیں گے

    عکس جل جائیں گے آئینے بکھر جائیں گے خواب ان جاگتی آنکھوں میں ہی مر جائیں گے ہم کہ دل دادہ کہاں رونق بازار کے ہیں بے نیازانہ ہی دنیا سے گزر جائیں گے جن کو دستار کی خواہش ہے انہیں کیا معلوم معرکہ اب کے وہ ٹھہرا ہے کہ سر جائیں گے کوئی منزل نہیں رستے ہیں فقط چاروں طرف جو نکل آئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بجھ گئے منظر افق پر ہر نشاں مدھم ہوا

    بجھ گئے منظر افق پر ہر نشاں مدھم ہوا لمحہ لمحہ سارا رنگ آسماں مدھم ہوا تھک گئے ہمراہ میرے جاگنے والے سبھی آخر شب مجھ میں بھی اک شور فغاں مدھم ہوا محو ہو جاؤں گا میں بھی ایک دن ہر ذہن سے آئنوں میں جیسے عکس رفتگاں مدھم ہوا رات ڈھلتے ڈھلتے آئی صبح کی دہلیز تک دل نے لے تبدیل کر دی ...

    مزید پڑھیے

    اے مرے غبار سر تو ہی تو نہیں تنہا رائیگاں تو میں بھی ہوں

    اے مرے غبار سر تو ہی تو نہیں تنہا رائیگاں تو میں بھی ہوں میرے ہر خسارے پر میرے یہ مخالف کیا شادماں تو میں بھی ہوں دشت یہ اگر اپنی وسعتوں پہ نازاں ہے مجھ کو اس سے کیا لینا ذرہ ہی سہی لیکن میری اپنی وسعت ہے بے کراں تو میں بھی ہوں در بہ در بھٹکتی ہے دشت و شہر و صحرا میں اپنا سر پٹکتی ...

    مزید پڑھیے

    سفر سے پہلے سرابوں کا سلسلہ رکھ آئے

    سفر سے پہلے سرابوں کا سلسلہ رکھ آئے ہر ایک موڑ پہ آشوب اک نیا رکھ آئے کہاں بھٹکتی پھرے گی اندھیری گلیوں میں ہم اک چراغ سر کوچۂ ہوا رکھ آئے تمام عمر سفر سے غرض رہی ہم کو ہر اختتام پہ ہم ایک ابتدا رکھ آئے بھٹک نہ جائے مسافر کوئی ہمارے بعد سو راہ شوق میں ہم اپنے نقش پا رکھ آئے یہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ کے ارزاں لہو سرخئ منظر خموش

    دیکھ کے ارزاں لہو سرخئ منظر خموش بازئ جاں پر مری تیغ بھی ششدر خموش عکس مرا منتشر اور یہ عالم کہ ہے ایک اک آئینہ چپ ایک اک پتھر خموش تیغ نفس کو بہت ناز تھا رفتار پر ہو گئی آخر مرے خوں میں نہا کر خموش عرصۂ حیرت میں گم آئنہ خانے مرے خیمۂ مژگاں میں ہیں خواب کے پیکر خموش خوف سے سب دم ...

    مزید پڑھیے

    رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ

    رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ خواب زندہ ہیں سو آنکھوں میں جلاتے ہیں چراغ آندھیاں اب ہمیں محصور کئے بیٹھی ہیں اب تو ہم صرف خیالوں میں جلاتے ہیں چراغ ٹھوکریں کھاتے ہوئے عمر کٹی اپنی سو ہم دوسروں کے لئے راہوں میں جلاتے ہیں چراغ طنز کرتا ہوا گزرا تھا ہوا کا جھونکا تب سے ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا

    میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا ہوا بھی تیز نہ تھی اور چراغ مر بھی گیا میں سامنے بھی رہا ذہن سے اتر بھی گیا نہ احتیاط کوئی کام آیا عشق کے ساتھ جو روگ دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا عجب تھی ہجر کی ساعت کہ جاں پہ بن آئی کڑا تھا ...

    مزید پڑھیے

    مژہ پہ خواب نہیں انتظار سا کچھ ہے

    مژہ پہ خواب نہیں انتظار سا کچھ ہے بہار تو نہیں عکس بہار سا کچھ ہے مجھے ملا نہ کبھی فرش گل پہ بھی آرام یہی لگا کہ کہیں نوک خار سا کچھ ہے جو پاس تھا اسی سودائے سر کی نذر ہوا نہ دھجیاں ہی بچی ہیں نہ تار سا کچھ ہے تمام عمر جسے میں عبور کر نہ سکا درون ذات مرے بے کنار سا کچھ ہے گزر گئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3