پتھروں پر وادیوں میں نقش پا میرا بھی ہے

پتھروں پر وادیوں میں نقش پا میرا بھی ہے
راستوں سے منزلوں تک سلسلہ میرا بھی ہے


پاؤں اس کے بھی نہیں اٹھتے مرے گھر کی طرف
اور اب کے راستہ بدلا ہوا میرا بھی ہے


حبس کے عالم میں بھی زندہ ہوں تیری آس پر
اے ہوائے تازہ دروازہ کھلا میرا بھی ہے


بادلوں سے اے زمیں تو ہی نہیں ہے ناامید
رائیگاں سا اب کے کچھ حرف دعا میرا بھی ہے


بے بصارت شہر میں بے چہرگی کے درمیاں
اک دیا جلتا ہوا اک آئینہ میرا بھی ہے


دیکھتا ہوں میں بھی سب کے ساتھ دنیا کو مگر
اک الگ ذوق نظر اک زاویہ میرا بھی ہے


تیرگی میں آج اگر میں ہوں تو ہو سکتا ہے کل
دسترس میں چاند ہو آخر خدا میرا بھی ہے