دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے
دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے منہ تکا کرتا ہے ہر دم مرا حیرانی سے لوگ دریاؤں پہ کیوں جان دیئے دیتے ہیں تشنگی کا تو تعلق ہی نہیں پانی سے اب کسی بھاؤ نہیں ملتا خریدار کوئی گر گئی ہے مری قیمت مری ارزانی سے خود پہ سو جبر کئے دل کو بہت سمجھایا راس آئی کہاں دنیا ہمیں آسانی سے اب یہ ...