Aslam Barabankvi

اسلم بارہ بنکوی

اسلم بارہ بنکوی کی غزل

    بیمار غم ہوں کار مسیحا کرے کوئی

    بیمار غم ہوں کار مسیحا کرے کوئی درد دل و جگر کا مداوا کرے کوئی ذوق نظر کلیمؔ کا پیدا کرے کوئی پھر دید حسن یار کا دعویٰ کرے کوئی ملتا نہیں وفا کا وفا سے کہیں جواب پھر خاک دوستوں پہ بھروسا کرے کوئی پاس حیا نہیں انہیں جوش شباب میں ان کی بھی آرزو ہے کہ دیکھا کرے کوئی دیکھا جو محو ...

    مزید پڑھیے

    جان دے کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا

    جان دے کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا یوں بھی حق زیست کا ادا نہ ہوا فرض تھا عاشقی میں مر جانا ہم سے طے یہ بھی مرحلہ نہ ہوا یہ بھی آئین عشق تھا یعنی ان سے میں طالب وفا نہ ہوا تھا زیاں ہی زیاں محبت میں حسن تمکیں سے فائدہ نہ ہوا زندگی بے ثبات تھی اسلمؔ حق محبت کا کچھ ادا نہ ہوا

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ خوش رہو تم اور دعا کیا

    ہمیشہ خوش رہو تم اور دعا کیا بجز اس کے فقیروں کی صدا کیا حسینوں کی جفاؤں کا گلہ کیا ستم گاروں سے امید وفا کیا ذرا آنے تو دو فصل بہاراں ابھی ذکر جنون فتنہ زا کیا مزاج حسن سے میں آشنا ہوں نہ پوچھو دل کا میرے مدعا کیا فزوں تر ہو گئے کچھ غم ہمارے بجز اس کے محبت میں ملا کیا شکایت ہے ...

    مزید پڑھیے

    دل مست ہے لطف نگہ ناز تو دیکھو

    دل مست ہے لطف نگہ ناز تو دیکھو ہے کتنا حسیں عشق کا آغاز تو دیکھو کتنی کشش انگیز ہے آواز تو دیکھو کتنا ہے حسیں حسن کا اعجاز تو دیکھو بجلی ہے کہ سینے میں مرے شعلۂ دل ہے اس کی نگہ ناز کا اعجاز تو دیکھو مسرور ہے سرمایۂ ہستی کو مٹا کر یہ حوصلۂ عاشق جانباز تو دیکھو عاشق کے لئے جان ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں تیری وفا چاہتا ہوں

    محبت میں تیری وفا چاہتا ہوں وفا تجھ سے او دل ربا چاہتا ہوں نہیں طاقت ضبط یا رب مجھے اب میں احوال دل کا کہا چاہتا ہوں فنا ہو کے راہ محبت میں اے جاں بہ فیض تمنا بقا چاہتا ہوں ذرا دیکھ لو آ کے پہلی نظر سے کہ میں درد دل کچھ سوا چاہتا ہوں بہت غم زدہ ہوں بہت غم زدہ ہوں میں اب ایک درد ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2