جان دے کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا

جان دے کر بھی کچھ بھلا نہ ہوا
یوں بھی حق زیست کا ادا نہ ہوا


فرض تھا عاشقی میں مر جانا
ہم سے طے یہ بھی مرحلہ نہ ہوا


یہ بھی آئین عشق تھا یعنی
ان سے میں طالب وفا نہ ہوا


تھا زیاں ہی زیاں محبت میں
حسن تمکیں سے فائدہ نہ ہوا


زندگی بے ثبات تھی اسلمؔ
حق محبت کا کچھ ادا نہ ہوا