ہمیشہ خوش رہو تم اور دعا کیا

ہمیشہ خوش رہو تم اور دعا کیا
بجز اس کے فقیروں کی صدا کیا


حسینوں کی جفاؤں کا گلہ کیا
ستم گاروں سے امید وفا کیا


ذرا آنے تو دو فصل بہاراں
ابھی ذکر جنون فتنہ زا کیا


مزاج حسن سے میں آشنا ہوں
نہ پوچھو دل کا میرے مدعا کیا


فزوں تر ہو گئے کچھ غم ہمارے
بجز اس کے محبت میں ملا کیا


شکایت ہے تو بخت نارسا سے
حسینوں سے تغافل کا گلہ کیا


اگر وہ دور ہیں میری نظر سے
تو ایسی زندگی کا پھر مزا کیا


جنون عشق سے گھبرا رہا ہوں
نہ کہہ دے وہ کہیں اس کو ہوا کیا


سمجھ کر مجھ کو دیوانہ وہ اسلمؔ
خدا معلوم فرمائیں سزا کیا