Ashutosh Tiwari

آشوتوش تیواری

آشوتوش تیواری کی غزل

    زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے

    زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے یعنی چلتی بھی رہے سانس مگر ٹھہری رہے عشق کی رسم نہ بدلے کسی عاشق کے لیے راہ رو چلتے رہیں راہ گزر ٹھہری رہے وقت خود ہی ہمیں سکھلائے گا آداب سخن لب ناشاد پہ خاموشی اگر ٹھہری رہے باغ امکاں کے مناظر کا بلاوا ہے ہمیں کب تک الفت کے دریچے پہ نظر ٹھہری ...

    مزید پڑھیے

    پائی ہے وہ ملکیت جس میں ملا کچھ بھی نہیں

    پائی ہے وہ ملکیت جس میں ملا کچھ بھی نہیں سر پہ سارا آسماں اور زیر پا کچھ بھی نہیں اصل اپنا کھوجتا پھرتا ہے آدم عمر بھر زندگی خود کے تعاقب کے سوا کچھ بھی نہیں اب پلٹ کر پوچھتے ہو راہ میں کیا کیا ہوا ہم سیہ بختوں کو کیا ہوگا بھلا کچھ بھی نہیں عاشقی پر قول کرتے آ رہے ہیں چند لوگ لوگ ...

    مزید پڑھیے

    خیال آیا تو رو پڑے گا بس اک فسانہ ہوا کریں گے

    خیال آیا تو رو پڑے گا بس اک فسانہ ہوا کریں گے اگر ہم اک مرتبہ اٹھے تو کہاں تجھے پھر ملا کریں گے سوال ہم پر اٹھا کریں گے ہم ایسے مظلوم کیا کریں گے ہر ایک در پر جھکا کریں گے سبھی بتوں کو خدا کریں گے یہ خشک نظریں جنہیں زمانہ اجاڑ صحرا سمجھ رہا ہے کبھی نظر بھر کے دیکھو ان میں کئی ...

    مزید پڑھیے

    گزر جاتے ہیں آ کر سامنے کیا کیا الم اس کے

    گزر جاتے ہیں آ کر سامنے کیا کیا الم اس کے ٹھہرنے کا تکلف ہی نہیں کرتے قدم اس کے کبھی عرضی ہماری بھی سنی جاتی تھی مجلس میں کبھی ہم سے بھی تھے مانوس الطاف و کرم اس کے قیامت ہے کہ ان کو بھی عنایت کہہ رہا ہے دل ابھی تک جانتے تھے جن کو ہم ظلم و ستم اس کے سناتے تھے شکستہ دل کی آہیں ایک ...

    مزید پڑھیے

    جانی ہوئی گلیوں میں بسر کر نہیں پائے

    جانی ہوئی گلیوں میں بسر کر نہیں پائے لیکن کبھی پردیس میں گھر کر نہیں پائے ہر میل کے پتھر پہ لگائے تھے نشانات سنتے ہیں کہ تکمیل سفر کر نہیں پائے اک تم ہو جو خاموشی سے بے چین کئے ہو اک ہم ہیں جو باتوں سے اثر کر نہیں پائے شہر غم ہستی میں ہوا تیز بہت تھی کتنے ہی چراغ اپنی سحر کر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ستم گر کے ستم پر نوحہ خوانی کر نہیں سکتے

    ستم گر کے ستم پر نوحہ خوانی کر نہیں سکتے ہے یہ اک کاروبار رائیگانی کر نہیں سکتے ذرا یہ ولولے تھامو کہ منزل آنے والی ہے ابھی ہم راستوں سے بد زبانی کر نہیں سکتے ہمیشہ اپنا مقصد بھول جانے والے یہ کردار مکمل اس طرح کوئی کہانی کر نہیں سکتے حسیں ہو با وفا ہو رسم الفت بھی سمجھتے ...

    مزید پڑھیے

    دل لگی کرنے سے یہ دل کہاں مانا ہوتا

    دل لگی کرنے سے یہ دل کہاں مانا ہوتا تم نہ ملتے تو کہیں اور ٹھکانا ہوتا اپنی مرضی کے موافق جو فسانہ ہوتا وہ بھی دنیا کے مطابق ہی سنانا ہوتا کاش ٹوٹی ہوئی کشتی کے کھویا بنتے ہم کو دریا کے کسی پار تو جانا ہوتا یہ کوئی بھولی کہانی ہے جو یاد آتی ہے ایسی حالت میں کوئی دوست پرانا ...

    مزید پڑھیے

    اسیر زندگانی میں نہیں ہوں

    اسیر زندگانی میں نہیں ہوں بدن ہوتا ہے فانی میں نہیں ہوں جہاں کی بد گمانی میں نہیں ہوں خود اپنی خوش بیانی میں نہیں ہوں مرا دعویٰ نہیں ہے اس کھنڈر پر یہ مٹی اور پانی میں نہیں ہوں اگر پاتے ہو میرا دخل خود میں یہاں بس تم ہو یعنی میں نہیں ہوں گماں ہے بس ہنسی ہو یا کہ آنسو یہ سکھ دکھ ...

    مزید پڑھیے