گزر جاتے ہیں آ کر سامنے کیا کیا الم اس کے

گزر جاتے ہیں آ کر سامنے کیا کیا الم اس کے
ٹھہرنے کا تکلف ہی نہیں کرتے قدم اس کے


کبھی عرضی ہماری بھی سنی جاتی تھی مجلس میں
کبھی ہم سے بھی تھے مانوس الطاف و کرم اس کے


قیامت ہے کہ ان کو بھی عنایت کہہ رہا ہے دل
ابھی تک جانتے تھے جن کو ہم ظلم و ستم اس کے


سناتے تھے شکستہ دل کی آہیں ایک دوجے کو
ہمارا رازداں وہ بن گیا تھا اور ہم اس کے


مخالف آندھیوں سے ٹھن گئی کچھ یوں پرندے کی
نہیں جز عرش جاگا راہ میں لینے کو دم اس کے


دیار عیش میں اس کا تصور تک نہیں ہوتا
کڑے حالوں میں سب کھوجا کیے نقش قدم اس کے


کوئی مشکل بڑی امید سے رستے میں حائل تھی
سو ہم بھی دور ہی سے دیکھتے تھے پیچ و خم اس کے