اسیر زندگانی میں نہیں ہوں
اسیر زندگانی میں نہیں ہوں
بدن ہوتا ہے فانی میں نہیں ہوں
جہاں کی بد گمانی میں نہیں ہوں
خود اپنی خوش بیانی میں نہیں ہوں
مرا دعویٰ نہیں ہے اس کھنڈر پر
یہ مٹی اور پانی میں نہیں ہوں
اگر پاتے ہو میرا دخل خود میں
یہاں بس تم ہو یعنی میں نہیں ہوں
گماں ہے بس ہنسی ہو یا کہ آنسو
یہ سکھ دکھ کی کہانی میں نہیں ہوں
ہے اک جیسا مرا ہونا نہ ہونا
کوئی راز نہانی میں نہیں ہوں
صبائے مرگ کیا آتی ہے لینے
پلٹ بھی جا دیوانی میں نہیں ہوں