زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے
زندگی کیسے کسی مرحلے پر ٹھہری رہے
یعنی چلتی بھی رہے سانس مگر ٹھہری رہے
عشق کی رسم نہ بدلے کسی عاشق کے لیے
راہ رو چلتے رہیں راہ گزر ٹھہری رہے
وقت خود ہی ہمیں سکھلائے گا آداب سخن
لب ناشاد پہ خاموشی اگر ٹھہری رہے
باغ امکاں کے مناظر کا بلاوا ہے ہمیں
کب تک الفت کے دریچے پہ نظر ٹھہری رہے
ہم خوشی کے لیے اندر بھی جگہ رکھتے ہیں
اس کی مرضی ہے جدھر چاہے ادھر ٹھہری رہے
یہ سیہ بخت شب رنج کبھی ختم نہ ہو
اور مری آنکھ میں امید سحر ٹھہری رہے
دل کے بہلانے کو یہ حرف تسلی کیوں کر
اب ترے لوٹ کے آنے کی خبر ٹھہری رہے