جانی ہوئی گلیوں میں بسر کر نہیں پائے

جانی ہوئی گلیوں میں بسر کر نہیں پائے
لیکن کبھی پردیس میں گھر کر نہیں پائے


ہر میل کے پتھر پہ لگائے تھے نشانات
سنتے ہیں کہ تکمیل سفر کر نہیں پائے


اک تم ہو جو خاموشی سے بے چین کئے ہو
اک ہم ہیں جو باتوں سے اثر کر نہیں پائے


شہر غم ہستی میں ہوا تیز بہت تھی
کتنے ہی چراغ اپنی سحر کر نہیں پائے


کچھ ان کی نگاہوں سے حیا جھانک رہی تھی
کچھ ہم غلط انداز نظر کر نہیں پائے


اے رسم محبت تری تعظیم کی ہم نے
کوشش تو بہت کی تھی مگر کر نہیں پائے