اشرف باقری کی غزل

    آپ نا آشنا ہو گئے

    آپ نا آشنا ہو گئے یعنی ہم سے خفا ہو گئے زندگی مرحلہ بن گئی حادثے سلسلہ ہو گئے اب شکایت نہیں ہے کوئی شکوے سب برملا ہو گئے آدمی آدمی کے لیے توبہ توبہ خدا ہو گئے درد حد سے کچھ اتنے بڑھے آپ اپنی دوا ہو گئے اتفاقا وہ مانوس ہوئے احتیاطاً خفا ہو گئے زندگی کشمکش ہی رہی درد جس کا صلہ ...

    مزید پڑھیے

    آپ کا اعتبار کرتا ہوں

    آپ کا اعتبار کرتا ہوں یہ خطا بار بار کرتا ہوں بے تعلق سا اک تعلق ہے جس تعلق کو پیار کرتا ہوں ہم ہیں اور جستجوئے منزل ہے مدتوں انتظار کرتا ہوں کارواں زندگی کا گزرا ہے انتظار غبار کرتا ہوں موت نا معتبر سی لگتی ہے عمر کا اعتبار کرتا ہوں بات جب ہے کہ شرم رہ جائے توبہ یوں تو ہزار ...

    مزید پڑھیے

    کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے

    کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے میرے جنوں کا واقعہ میرے جگر سے پوچھئے دل کو سکوں نہ مل سکا تیرے بغیر عمر بھر تیر نظر کی بات ہے ذوق نظر سے پوچھئے میرا تو دل نکال کر جیسے حیات رکھ گئی میں نے کیا تھا اس کا کیا اس کے ہی شر سے پوچھئے ہائے وہ اک مقام پر رہبر جہاں پہ رو دیا اہل ...

    مزید پڑھیے

    پشیمانیاں ہی پشیمانیاں ہیں

    پشیمانیاں ہی پشیمانیاں ہیں کسی مہرباں کی مہربانیاں ہیں میں ہوں اور میری یہ تنہائیاں ہیں بھری انجمن میں یہ ویرانیاں ہیں مقدر مرا جیسے دشواریاں ہوں مرے واسطے کتنی آسانیاں ہیں مرے حال پر ہنس رہا ہے زمانہ نہ جانے یہ کس کی مہربانیاں ہیں بھلا کر تجھے اے دل و جاں کے ...

    مزید پڑھیے

    ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں

    ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں چراغ سحر ہیں بجھائے ہوئے ہیں جو غم کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں وہ سینے میں شعلے چھپائے ہوئے ہیں سناؤ یہ مژدے غموں کے اے لوگو یہ نغمے سنے اور سنائے ہوئے ہیں گنوائے ہوئے ہیں وہ سب کچھ ہی اپنا جو شعلوں سے دامن جلائے ہوئے ہیں ہمیں آزمائے ہوئے ہے ...

    مزید پڑھیے

    راہ غم سے حیات گزری ہے

    راہ غم سے حیات گزری ہے مضمحل سی برات گزری ہے ہائے یہ کس طرح گزرنی تھی بن کے جو حادثات گزری ہے ضبط غم ہو کہ شدت غم ہو حد سے ہر ایک بات گزری ہے دے گئے ساتھ زندگی کا غم عمر کیا غم کی رات گزری ہے دل پہ ایسی گزر گئی ہمدم جیسے اک واردات گزری ہے چھوڑ کر جا رہا ہے کیوں اے غم زندگی تیرے ...

    مزید پڑھیے

    تیری نظر میں عالم میری نظر میں تو ہے

    تیری نظر میں عالم میری نظر میں تو ہے اک دل کے ہاتھ میں اب اک دل کی آبرو ہے فطرت کا رنگ لے کر پھرتی جو چار سو ہے اک بے گناہ دل کی معصوم آرزو ہے پژمردہ گل چمن کا کلیوں سے کہہ رہا ہے پھولوں کی خوش نمائی اک راز رنگ و بو ہے جب حد سے بڑھ گئی کچھ ہر حد مری خوشی کی میں نے سمجھ لیا کہ اب ختم ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے کر لیا عہد وفا معلوم ہوتا ہے

    کسی نے کر لیا عہد وفا معلوم ہوتا ہے ہوا ہے درد اپنی خود دوا معلوم ہوتا ہے ترے صفحہ پہ ہستی یہ لکھا معلوم ہوتا ہے کہ انساں اک مسافر ہے تھکا معلوم ہوتا ہے ادھر یادیں تری ہیں اور ادھر دل کی رگیں ٹوٹی بچھڑتا ایک سے اب دوسرا معلوم ہوتا ہے وہی یادیں ہیں لیکن کیفیت ہے دوسری دل کی وہی ...

    مزید پڑھیے