اشرف باقری کی نظم

    کبھی کبھی

    کچھ یوں بدل گیا مرا طرز بیاں کبھی کبھی جیسے زبان ہوتی ہے خود بے زباں کبھی کبھی خود سے ہی ہو گیا ہوں میں بیزار ہاں کبھی کبھی گزری یہ زندگی مجھے اتنی گراں کبھی کبھی دے کر غم جہاں مجھے اشکوں پہ میرے بندشیں یوں بھی لیا ہے تو نے مرا امتحاں کبھی کبھی وہ شدت بیاں ہو کہ ہو جرأت بیان ...

    مزید پڑھیے

    کیف

    یہاں سجدہ وہاں سجدہ نہ کعبہ ہے نہ بت خانہ نہ جانے کر رہا ہے کیا کسی مستی میں مستانہ پلا دے مجھ کو ساقی تو یوں پیمانہ بہ پیمانہ نظر آئے تری دنیا مجھے بس ایک پیمانہ مجھے لگتا ہے اب ساغر بھی جیسے ایک مے خانہ نگاہ خاص ہے جب سے تری اے پیر مے خانہ عجب تو ہے عجب مے ہے عجب سا تیرا مے ...

    مزید پڑھیے

    حادثات

    زندگی حادثات لگتی ہے کتنی چھوٹی سی بات لگتی ہے تنگ سی کائنات لگتی ہے مختصر جب حیات لگتی ہے قید غم اور بندش ہستی قید میں گزری رات لگتی ہے حسرتوں کے ہجوم میں اکثر زندگی ممکنات لگتی ہے وہ بھی اکثر اداس ہوتے ہیں ہر خوشی جن کے ساتھ لگتی ہے اشک باری نہ پوچھئے ہم سے آنکھ ساون کی رات ...

    مزید پڑھیے

    کیفیت

    اے نگاہ مست اپنا سا ہی مستانہ بنا مے بنا دے روح کو اور جاں کو پیمانہ بنا کیف و مستی کا بنا دے جام دست شوق میں لوٹ لے جو میکدہ وہ پیر مے خانہ بنا فیض پر تیرے نگاہ فیض ہے یہ منحصر جس کو چاہے جیسے چاہے اپنا دیوانہ بنا خود سے بیگانہ بنا دے کیف و مستی چھین لے لو میں شمع عشق کی جل جاؤں ...

    مزید پڑھیے