آپ کا اعتبار کرتا ہوں
آپ کا اعتبار کرتا ہوں
یہ خطا بار بار کرتا ہوں
بے تعلق سا اک تعلق ہے
جس تعلق کو پیار کرتا ہوں
ہم ہیں اور جستجوئے منزل ہے
مدتوں انتظار کرتا ہوں
کارواں زندگی کا گزرا ہے
انتظار غبار کرتا ہوں
موت نا معتبر سی لگتی ہے
عمر کا اعتبار کرتا ہوں
بات جب ہے کہ شرم رہ جائے
توبہ یوں تو ہزار کرتا ہوں
اپنے پر اختیار ہے سب کو
یاد بے اختیار کرتا ہوں
لغزشیں زندگی کی مت پوچھو
پہروں بیٹھا شمار کرتا ہوں
جز ندامت کے کچھ نہیں ملتا
نظریں جب خود سے چار کرتا ہوں
میرا اپنا ہی سایہ ہے اشرفؔ
جان جس پر نثار کرتا ہوں