تیری نظر میں عالم میری نظر میں تو ہے
تیری نظر میں عالم میری نظر میں تو ہے
اک دل کے ہاتھ میں اب اک دل کی آبرو ہے
فطرت کا رنگ لے کر پھرتی جو چار سو ہے
اک بے گناہ دل کی معصوم آرزو ہے
پژمردہ گل چمن کا کلیوں سے کہہ رہا ہے
پھولوں کی خوش نمائی اک راز رنگ و بو ہے
جب حد سے بڑھ گئی کچھ ہر حد مری خوشی کی
میں نے سمجھ لیا کہ اب ختم آرزو ہے
ہونٹوں کو ہو نہ جنبش وہ سب سمجھ رہے ہوں
یہ شان گفتگو بھی اک شان گفتگو ہے
مجھ سے سنو جنوں اور بے چارگی کا مطلب
پھولوں کی چاہ کرنا کانٹوں کی آرزو ہے
کون ہے جو بے قرار ہے تیرے بغیر اشرفؔ
منزل کو دیکھ شاید اب تیری جستجو ہے