راہ غم سے حیات گزری ہے

راہ غم سے حیات گزری ہے
مضمحل سی برات گزری ہے


ہائے یہ کس طرح گزرنی تھی
بن کے جو حادثات گزری ہے


ضبط غم ہو کہ شدت غم ہو
حد سے ہر ایک بات گزری ہے


دے گئے ساتھ زندگی کا غم
عمر کیا غم کی رات گزری ہے


دل پہ ایسی گزر گئی ہمدم
جیسے اک واردات گزری ہے


چھوڑ کر جا رہا ہے کیوں اے غم
زندگی تیرے ساتھ گزری ہے


اشک بار ہے حیات مدت سے
رقص کرتی ممات گزری ہے


کل ترے ساتھ نہ گزر جائے
آج جو میرے ساتھ گزری ہے


جیسے گزری ہو اہتماموں میں
یوں غموں میں حیات گزری ہے


اس کے بن پوچھ مت یہ اشرفؔ سے
کس طرح کل کی رات گزری ہے