کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے
کیسے جلے ہیں بال و پر یہ تو شرر سے پوچھئے
میرے جنوں کا واقعہ میرے جگر سے پوچھئے
دل کو سکوں نہ مل سکا تیرے بغیر عمر بھر
تیر نظر کی بات ہے ذوق نظر سے پوچھئے
میرا تو دل نکال کر جیسے حیات رکھ گئی
میں نے کیا تھا اس کا کیا اس کے ہی شر سے پوچھئے
ہائے وہ اک مقام پر رہبر جہاں پہ رو دیا
اہل سفر پہ گزری کیا گرد سفر سے پوچھئے
مجھ سے یہ پوچھئے مجھے کیا ہے دیا حیات نے
اہل نظر کی بات تو اہل نظر سے پوچھئے
نازک سی ایک بات پر تنہا جہان میں یہ دل
کتنا تڑپ کے رہ گیا درد بشر سے پوچھئے
انساں کو کیا ملا بتا ہستی ترے وجود سے
کیسے ہوئی یہ روشنی شمس و قمر سے پوچھئے
قید حیات میں بھی ہاں شوق سجود نے مرے
سجدے لٹائے کتنے ہیں ان کے ہی در سے پوچھئے
اشرفؔ بتائے زندگی کیسے کہ شرمسار ہے
اپنا مقام آپ خود اپنی نظر سے پوچھئے