Arsh Siddiqui

عرش صدیقی

عرش صدیقی کے تمام مواد

45 غزل (Ghazal)

    ہم کہ خاموش ہوئے اہل بیاں دیکھتے ہیں

    ہم کہ خاموش ہوئے اہل بیاں دیکھتے ہیں راز انداز تکلم سے عیاں دیکھتے ہیں جان لیوا ہے فریب رہ گلزار طلب نشتر شوق قریب رگ جاں دیکھتے ہیں ہے اسی گھر میں کہیں گوہر امید نہاں سوئے ویرانۂ دل بہر اماں دیکھتے ہیں کیسے بنتا ہے لہو سرخی افسانۂ دل کیسے بنتا ہے قلم نوک سناں دیکھتے ہیں آتش ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی

    زنجیر سے اٹھتی ہے صدا سہمی ہوئی سی جاری ہے ابھی گردش پا سہمی ہوئی سی دل ٹوٹ تو جاتا ہے پہ گریہ نہیں کرتا کیا ڈر ہے کہ رہتی ہے وفا سہمی ہوئی سی اٹھ جائے نظر بھول کے گر جانب افلاک ہونٹوں سے نکلتی ہے دعا سہمی ہوئی سی ہاں ہنس لو رفیقو کبھی دیکھی نہیں تم نے نمناک نگاہوں میں حیا سہمی ...

    مزید پڑھیے

    اٹھا جو دست ستم قتل بے نوا کے لئے

    اٹھا جو دست ستم قتل بے نوا کے لئے نگاہ شوق نے بوسے ہر اک ادا کے لئے مہک ہے تیرے شبستاں کی بوئے زلف صبا چلی ہے باد صبا اک شکستہ پا کے لئے سنو کہ دل کو مرے اعتبار زیست نہیں رکا ہوں ایک نفس عرض مدعا کے لئے مرے خیال نے پہنا لباس حرف و ندا صریر خامہ ہے رقصاں مری نوا کے لئے دیار دل تو ...

    مزید پڑھیے

    بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے

    بس ایک ہی کیفیت دل صبح مسا ہے ہر لمحہ مری عمر کا زنجیر بہ پا ہے میں شہر کو کہتا ہوں بیاباں کہ یہاں بھی سایہ تری دیوار کا کب سر پہ پڑا ہے ہے وقت کہ کہتا ہے رکوں گا نہ میں اک پل تو ہے کہ ابھی بات مری تول رہا ہے میں بزم سے خاکستر دل لے کے چلا ہوں اور سامنے تنہائی کے صحرا کی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے

    درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے خامشی کے ساز پر روداد غم کہتے رہے گوش بر آواز پوری بزم میں کوئی نہ تھا داستان آرزو کہنے کو ہم کہتے رہے انتہائے یاس میں چلتے رہے بے مدعا دیکھنے والے ہمیں ثابت قدم کہتے رہے دل فریب زندگی میں بے طرح الجھا رہا عشق کو آزاد پتھر کو صنم کہتے رہے کم ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    اس نے مجھے کیوں روکنا چاہا

    مجھے اس سے تعلق تھا تو بس اتنا کہ میری چند سانسیں کھو گئی تھیں اس کی بستی میں مگر میں نے اسے اپنی محبت کا امیں جانا نہ اس نے ہی کبھی گلیوں میں چھپ چھپ کر مجھے دیکھا کبھی ہم راہ میں اک دوسرے کے سامنے آئے تو یوں جیسے کسی خاموش اسٹیشن پہ دو سادہ مسافر ریل کی آمد پر اک دم چونک کر اک ...

    مزید پڑھیے

    آسیب

    تری رہ گزر کو میں یوں چھوڑ آیا کہ اک بے نوا کی تباہی کا تجھ پر نہ الزام آئے میں سمجھا تھا یوں شہر کی رونقوں میں الجھ کر تری بے نیازی کے آسیب سے بچ رہوں گا مگر جب کبھی میں سر شام کیفے میں پہنچا تو دیکھا کہ تو حال کے ایک کونے میں اک میز پر سر جھکائے نہ جانے کسے نامۂ مشکبو لکھ رہا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی مٹی کی خوشبو

    میں جب بستی کی سرحد پر کھڑا ہو کر افق میں ڈوبتی راہوں کو تکتا تھا تو وہ رو رو کے کہتی تھی مجھے ڈر ہے تجھے یہ نا ترس راہیں نہ کر ڈالیں جدا مجھ سے میں اپنی نیم ترساں انگلیوں سے اس کے آنسو پونچھ کر کہتا تھا اب کیسا جدا ہونا مگر میں دل میں ڈرتا تھا کہ ان راہوں سے واقف تھا انہی راہوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    پتھر کے اس بت کی کہانی

    سفر میرا اگرچہ منزل اور انجام کی خوشیوں سے عاری تھا مگر چلنا مقدر تھا کہ میرے اور اس کے درمیاں جو مختصر سا فاصلہ تھا وہ نہ مٹتا تھا مجھے اس کے تعاقب میں نہ جانے کتنے صدیوں سے برس بیتے نہ جانے کتنے صحراؤں بیابانوں نہ جانے کتنے شہروں اور ویرانوں سے میں گزرا نہ جانے کتنی آوازوں نے ...

    مزید پڑھیے

    نارسائی

    نزہت شام نے جب رخت سفر باندھ لیا درد نے روح کو بیداری کا پیغام دیا آہ ناسور وفا گھر سے ہم عشرت آزاد کے شیدا نکلے ہو کے جاں سوزی تنہائی سے پسپا نکلے لے کر اپنے دل بیمار کو تنہا نکلے سوچ رکھا تھا کہ اب یوں اسے بہلائیں گے رقص میں مے میں کسی ساز میں کھو جائیں گے ہوش سے آج تو محروم سے ہو ...

    مزید پڑھیے

تمام