اس نے مجھے کیوں روکنا چاہا

مجھے اس سے تعلق تھا تو بس اتنا
کہ میری چند سانسیں کھو گئی تھیں اس کی بستی میں
مگر میں نے اسے اپنی محبت کا امیں جانا
نہ اس نے ہی کبھی گلیوں میں چھپ چھپ کر مجھے دیکھا
کبھی ہم راہ میں اک دوسرے کے سامنے آئے
تو یوں جیسے کسی خاموش اسٹیشن پہ دو سادہ مسافر
ریل کی آمد پر اک دم چونک کر اک دوسرے کو خوف سے دیکھیں
اب اس کے اور میرے درمیان تلوار سی کالی مسافت ہے
مگر میں سوچتا رہتا ہوں جب کوئی نہ تھا ایسا تعلق درمیاں
جس کو میں چاہت کا ثمر کہتا
تو وہ کیوں فاصلہ دے کر بھری بستی کی سرحد تک مرے پیچھے چلا آیا
اور اس نے اپنی بھیگی بولتی آنکھوں کی حسرت سے
مجھے کیوں روکنا چاہا