آسیب

تری رہ گزر کو میں یوں چھوڑ آیا
کہ اک بے نوا کی تباہی کا تجھ پر نہ الزام آئے
میں سمجھا تھا یوں شہر کی رونقوں میں الجھ کر
تری بے نیازی کے آسیب سے بچ رہوں گا
مگر جب کبھی میں سر شام کیفے میں پہنچا
تو دیکھا
کہ تو حال کے ایک کونے میں اک میز پر سر جھکائے
نہ جانے کسے نامۂ مشکبو لکھ رہا ہے
کبھی مال پر میں نے ٹیکسی جو روکی
تو دیکھا
کہ ٹیکسی میں پہلے سے اک آشنا چہرۂ دل نشیں کی ضیا ہے
ہمیشہ یہ تو تھا
کبھی شام کو میں کسی سنیما حال میں جا کے بیٹھا
تو دیکھا
کہ پہلو میں تو ہے
کئی بار میں نے تجھے گلشن فاطمہؓ کی ہری گھاس پر بیٹھے دیکھا
کئی بار بازار میں تو مرے ساتھ چلتا رہا دیر تک اور
کئی بار تو میرے گھر تک مرے ساتھ آیا
اور اب اپنے تاریک کمرے میں بیٹھا ہوا سوچتا ہوں
تری رہ گزر کو میں کیوں چھوڑ آیا