Arsh Sahbai

عرش صہبائی

ریاست جموں و کشمیر کے معروف شاعر

Well-known poet from Jammu and Kashmir

عرش صہبائی کی غزل

    حالات مری راہ میں حائل تو نہیں تھے

    حالات مری راہ میں حائل تو نہیں تھے اس زندگی میں اتنے مسائل تو نہیں تھے یہ آج اچانک ہوئی کیوں ہم پہ توجہ وہ لطف و کرم پہ کبھی مائل تو نہیں تھے اک دوسرے سے دور نکل آئے ہیں ہم لوگ ہم بھی کبھی یہ فاصلے حائل تو نہیں تھے تو نے ہمیں شاید غلط انداز سے سوچا ہم تیرے تمنائی تھے سائل تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ان سے اظہار شکایات کروں یا نہ کروں

    ان سے اظہار شکایات کروں یا نہ کروں لب پہ لرزاں سی ہے اک بات کروں یا نہ کروں کھینچ لائے نہ کہیں پھر یہ محبت کی کشش جرأت‌ ترک ملاقات کروں یا نہ کروں میری خاموشیٔ پیہم کا انہیں شکوہ ہے ذکر بے دردیٔ حالات کروں یا نہ کروں ہے غم حال میں انسان پریشاں خاطر فکر فردا کی کوئی بات کروں یا ...

    مزید پڑھیے

    کون سا وہ زخم دل تھا جو تر و تازہ نہ تھا

    کون سا وہ زخم دل تھا جو تر و تازہ نہ تھا زندگی میں اتنے غم تھے جن کا اندازہ نہ تھا ہم نکل سکتے بھی تو کیوں کر حصار ذات سے صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا اس کی آنکھوں سے نمایاں تھی محبت کی چمک اس کے چہرے پر نئی تہذیب کا غازہ نہ تھا اتنی شدت سے کبھی آیا نہ تھا اس کا ...

    مزید پڑھیے

    مستیٔ بادۂ گلفام سے وابستہ رہی

    مستیٔ بادۂ گلفام سے وابستہ رہی زندگی رقص مے و جام سے وابستہ رہی لوگ کہتے ہیں کہ کچھ اس میں مرا ذکر بھی تھا وہ حکایت جو ترے نام سے وابستہ رہی دل جو گھبرایا تو مے خانے میں ہم جا بیٹھے ہر خلش بادۂ گلفام سے وابستہ رہی اس کی مجبورئ پیہم پہ ذرا غور کریں جو تمنا دل ناکام سے وابستہ ...

    مزید پڑھیے

    دل مضطر سے نالاں ہیں ادھر وہ بھی ادھر ہم بھی

    دل مضطر سے نالاں ہیں ادھر وہ بھی ادھر ہم بھی محبت میں پریشاں ہیں ادھر وہ بھی ادھر ہم بھی کسے فرصت ہے ماضی کی پرانی داستاں چھیڑے غم حاضر میں غلطاں ہیں ادھر وہ بھی ادھر ہم بھی بظاہر کوئی حیرانی نہیں ترک محبت پر مگر دل میں پشیماں ہیں ادھر وہ بھی ادھر ہم بھی خزاں کے جور پیہم کی ...

    مزید پڑھیے

    غم ماضی غم حاضر غم فردا کے سوا

    غم ماضی غم حاضر غم فردا کے سوا زندگی کچھ بھی نہیں خون تمنا کے سوا دیکھتے دیکھتے ہی ناؤ کہاں ڈوب گئی کس کو معلوم ہے طغیانیٔ دریا کے سوا ان سے روداد ستم کہئے تو کیوں کر کہئے جن کو کچھ یاد نہیں شکوۂ بے جا کے سوا میرے اس حال پریشاں کی خبر کس کو نہیں سب پہ ظاہر ہے حقیقت یہ مسیحا کے ...

    مزید پڑھیے

    ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے

    ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے کہاں چلی ہے زندگی کشاں کشاں لیے ہوئے مرے نصیب کی یہ ظلمتیں نہ مٹ سکیں کبھی کوئی گزر گیا ہزار کہکشاں لیے ہوئے یہ زندگی بدلتے موسموں کا رنگ روپ ہے کبھی بہار کا سماں کبھی خزاں لیے ہوئے مرا یہ کرب ہے کہ میرا کارواں گزر گیا سمٹ کے رہ گیا ہوں گرد ...

    مزید پڑھیے

    ان کی یادوں کی حسیں پرچھائیاں رہ جائیں گی

    ان کی یادوں کی حسیں پرچھائیاں رہ جائیں گی دل کو ڈسنے کے لئے تنہائیاں رہ جائیں گی ہم نہ ہوں گے پھر بھی بزم آرائیاں رہ جائیں گی اپنی شہرت کے لئے رسوائیاں رہ جائیں گی ہم خلا کی وسعتوں میں اس طرح کھو جائیں گے دور تک بکھری ہوئی تنہائیاں رہ جائیں گی مٹ نہ پائیں گے کسی صورت بھی ماضی ...

    مزید پڑھیے

    کسے خبر تھی کہ ذہن و دل میں عجیب سا انتشار ہوگا

    کسے خبر تھی کہ ذہن و دل میں عجیب سا انتشار ہوگا وہ وقت آئے گا بے یقینی کا چار جانب غبار ہوگا یہ صاف ظاہر ہے زندگی میں سکوں کی ہوگی نہ کوئی صورت کہیں خزاں کی اجارہ داری کہیں فریب بہار ہوگا یہاں کا آئین ہی عجب ہے کہ طرز نو کا یہ مے کدہ ہے جو بیکسوں کا لہو پیے گا وہ مے کشوں میں شمار ...

    مزید پڑھیے

    آرزو رقص میں ہے وقت کی آواز کے ساتھ

    آرزو رقص میں ہے وقت کی آواز کے ساتھ زندگی نغمہ سرا ہے نئے انداز کے ساتھ زندگی دیکھ نہ یوں اجنبی انداز کے ساتھ ہم کو نسبت ہے تری چشم فسوں ساز کے ساتھ اس کے مذکور سے لبریز ہیں نغمے اس کے اس نے مرغوب کیا دل کو کس اعجاز کے ساتھ یہ حقیقت میں زمانے کی خبر رکھتے ہیں سہمے سہمے سے ہیں جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2