ان کی یادوں کی حسیں پرچھائیاں رہ جائیں گی

ان کی یادوں کی حسیں پرچھائیاں رہ جائیں گی
دل کو ڈسنے کے لئے تنہائیاں رہ جائیں گی


ہم نہ ہوں گے پھر بھی بزم آرائیاں رہ جائیں گی
اپنی شہرت کے لئے رسوائیاں رہ جائیں گی


ہم خلا کی وسعتوں میں اس طرح کھو جائیں گے
دور تک بکھری ہوئی تنہائیاں رہ جائیں گی


مٹ نہ پائیں گے کسی صورت بھی ماضی کے نقوش
دل کی دیواروں پہ کچھ پرچھائیاں رہ جائیں گی


ہم مسافر ہیں نکل جائیں گے ہر بستی سے دور
اور ہم کو ڈھونڈھتی پروائیاں رہ جائیں گی


پھول سے خوشبو کی صورت ہم جدا ہو جائیں گے
یہ بہاریں یہ چمن آرائیاں رہ جائیں گی


مثل نغمہ ہم فضا میں جذب ہو جائیں گے عرشؔ
گنگناتی گونجتی شہنائیاں رہ جائیں گی