کون سا وہ زخم دل تھا جو تر و تازہ نہ تھا
کون سا وہ زخم دل تھا جو تر و تازہ نہ تھا
زندگی میں اتنے غم تھے جن کا اندازہ نہ تھا
ہم نکل سکتے بھی تو کیوں کر حصار ذات سے
صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا
اس کی آنکھوں سے نمایاں تھی محبت کی چمک
اس کے چہرے پر نئی تہذیب کا غازہ نہ تھا
اتنی شدت سے کبھی آیا نہ تھا اس کا خیال
زخم دل پہلے کبھی اتنا تر و تازہ نہ تھا
اس کی ہر اک سوچ میں ہے اک مسلسل انتشار
اس طرح بکھرا ہوا اس دل کا شیرازہ نہ تھا
دور کر دے گا زمانے سے مجھے میرا خلوص
مجھ کو اپنی اس صلاحیت کا اندازہ نہ تھا
عرشؔ ان کی جھیل سی آنکھوں کا اس میں کیا قصور
ڈوبنے والوں کو گہرائی کا اندازہ نہ تھا