Arman Najmi

ارمان نجمی

ارمان نجمی کی غزل

    نہ صرف اتنا کہ تند و تیز دھارا دیکھتا ہوں میں

    نہ صرف اتنا کہ تند و تیز دھارا دیکھتا ہوں میں جو کٹتا جا رہا ہے وہ کنارا دیکھتا ہوں میں پہنچ کر سرحد عرفاں پہ آنکھیں بجھنے لگتی ہیں یہ کس بے اعتباری کا نظارہ دیکھتا ہوں میں سبھی نظریں تو ہیں بجھتے چراغوں تک جمی لیکن بساط انجمن کو پارہ پارہ دیکھتا ہوں میں بھڑک اٹھتے ہیں جب شعلے ...

    مزید پڑھیے

    بدلے گا رخ ہوا کبھی تو

    بدلے گا رخ ہوا کبھی تو کھل جائے گا راستہ کبھی تو غفلت پہ خود اپنی چونک اٹھے گا سن کر وہ مری صدا کبھی تو ہو جائے گا منکشف بھی خود پر دیکھے گا وہ آئنہ کبھی تو کب تک یہ ادائے بے نیازی ٹوٹے گا یہ سلسلہ کبھی تو کھولے گا وہ مجھ پہ باب رحمت سن لے گا مری دعا کبھی تو قائم ہے امید پر ہی ...

    مزید پڑھیے

    بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے

    بجھی نہیں ابھی یہ پیاس بھی غنیمت ہے زباں پہ کانٹوں کا احساس بھی غنیمت ہے رواں ہے سانس کی کشتی اسی کے دھارے پر یہ ایک ٹوٹی ہوئی آس بھی غنیمت ہے نشاں نمو کے ہیں کچھ تو بساط صحرا پر جھلستی جلتی ہوئی گھاس بھی غنیمت ہے پھر اس کے بعد تمہاری شناخت کیا ہوگی روایتوں کی یہ بو باس بھی ...

    مزید پڑھیے

    تاج زریں نہ کوئی مسند شاہی مانگوں

    تاج زریں نہ کوئی مسند شاہی مانگوں میں تو بس اپنے ہی ہونے کی گواہی مانگوں مجھ کو سقراط کا منصب نہیں حاصل کرنا کیا میں سچ بول کے اپنی ہی تباہی مانگوں ہار جاؤں گا تو مٹی کے قدم چوموں گا گرتی دیوار سے کیا پشت پناہی مانگوں زیب دیتا ہے مرے تن پہ فقیری کا لباس کسی دربار سے کیا خلعت ...

    مزید پڑھیے

    اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں

    اپنی سچائی کا آزار جو پالے ہوئے ہیں خود کو ہم گردش آفات میں ڈالے ہوئے ہیں بند مٹھی میں جو خوشبو کو سنبھالے ہوئے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں ہیں تو آباد مگر در بدری کی زد پر وہ بھی میری ہی طرح گھر سے نکالے ہوئے ہیں اپنی رفتار سے آگے بھی نکل سکتا ہوں مجھ پہ کب حاوی ...

    مزید پڑھیے

    اک بے نشان حرف صدا کی طرف نہ دیکھ

    اک بے نشان حرف صدا کی طرف نہ دیکھ وہ دور جا چکا ہے ہوا کی طرف نہ دیکھ آباد کر لے دیدہ و دل میں صنم کدے کہتا ہے وہ کہ ایک خدا کی طرف نہ دیکھ اپنی ہی عافیت کی تگ و دو میں محو رہ اس سر زمین آہ و بکا کی طرف نہ دیکھ اپنے افق کی تنگ فضا سے ہی کام رکھ میدان حشر دشت بلا کی طرف نہ دیکھ کر لے ...

    مزید پڑھیے

    گھنی آبادیوں کی بے امانی کا تماشا کر

    گھنی آبادیوں کی بے امانی کا تماشا کر نکل کر گھر سے مرگ ناگہانی کا تماشا کر جو زندہ آگ میں ڈالے گئے لاشیں نہ گن ان کی جو بچ نکلے ہیں ان کی سخت جانی کا تماشا کر جو تخت و تاج کے مالک ہیں کیا وہ معتبر بھی ہیں شر انگیزی میں ڈوبی حکمرانی کا تماشا کر بچا کیا رہ گیا کالک بھرے جھلسے ...

    مزید پڑھیے

    میں لکھ کر ہو سکوں گا سرخ رو کیا

    میں لکھ کر ہو سکوں گا سرخ رو کیا قلم کیا اور قلم کی آبرو کیا نہ سوچا کاٹنے والے نے اتنا ہری ڈالی کی تھی کچھ آرزو کیا ذرا جاگے تو ہم سینہ سپر ہوں انا کو جو سلا دے وہ لہو کیا زمیں کو آب و دانہ دے کے دیکھو کھلا دیتی ہے گلزار نمو کیا عدو کو زیر کر لو فاصلوں سے لڑائی اب ہے لازم دو بہ ...

    مزید پڑھیے

    گرتے ابھرتے ڈوبتے دھارے سے کٹ گیا

    گرتے ابھرتے ڈوبتے دھارے سے کٹ گیا دریا سمٹ کے اپنے کنارے سے کٹ گیا موسم کے سرد و گرم اشارے سے کٹ گیا زخمی وجود وقت کے دھارے سے کٹ گیا کیا فرق اس کو جڑ سے اکھاڑا گیا جسے ٹکڑے کیا تبر نے کہ آرے سے کٹ گیا تنہائی ہم کنار ہے صحرا کی رات بھر کیسے میں اپنے چاند ستارے سے کٹ گیا چلتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو آ کے ملو میرا حال تو پوچھو

    کبھی تو آ کے ملو میرا حال تو پوچھو کہ مجھ سے چھوٹ کے بھی آج کیسے زندہ ہو جوانیوں کی یہ رت کس طرح گزرتی ہے بس ایک بار تم اپنی نظر سے دیکھ تو لو وہ آرزوؤں کا موسم تو کب کا بیت چکا میں کب سے جھیل رہا ہوں دکھوں کے صحرا کو مسرتوں کی رتیں تو تمہارے ساتھ گئیں میں کیسے دور کروں روح کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3