نہ صرف اتنا کہ تند و تیز دھارا دیکھتا ہوں میں

نہ صرف اتنا کہ تند و تیز دھارا دیکھتا ہوں میں
جو کٹتا جا رہا ہے وہ کنارا دیکھتا ہوں میں


پہنچ کر سرحد عرفاں پہ آنکھیں بجھنے لگتی ہیں
یہ کس بے اعتباری کا نظارہ دیکھتا ہوں میں


سبھی نظریں تو ہیں بجھتے چراغوں تک جمی لیکن
بساط انجمن کو پارہ پارہ دیکھتا ہوں میں


بھڑک اٹھتے ہیں جب شعلے تو حیرانی نہیں ہوتی
فضا کی گود میں پلتا شرارہ دیکھتا ہوں میں


مناظر کب بدلتے ہیں جگہ تبدیل ہونے سے
وہی ایک کھیل ہے جس کو دوبارہ دیکھتا ہوں میں


وہاں سے کیوں مری سوچوں پہ تم الزام دھرتے ہو
یہاں آ کر تو دیکھو کیا نظارہ دیکھتا ہوں میں