نگاہ تشنہ سے حیرت کا باب دیکھتے ہیں
نگاہ تشنہ سے حیرت کا باب دیکھتے ہیں بساط آب پہ رقص سراب دیکھتے ہیں اکھڑتے خیموں پہ کیا قہر شام ٹوٹا ہے لہو میں ڈوبا ہوا آفتاب دیکھتے ہیں نہیں ہے قطرے کی اوقات بھی جنہیں حاصل وہ کم نظر بھی سمندر کے خواب دیکھتے ہیں انہیں تو وقت کی گردش اسیر کر بھی چکی وہ اب گذشتہ زمانے کا خواب ...