تاج زریں نہ کوئی مسند شاہی مانگوں

تاج زریں نہ کوئی مسند شاہی مانگوں
میں تو بس اپنے ہی ہونے کی گواہی مانگوں


مجھ کو سقراط کا منصب نہیں حاصل کرنا
کیا میں سچ بول کے اپنی ہی تباہی مانگوں


ہار جاؤں گا تو مٹی کے قدم چوموں گا
گرتی دیوار سے کیا پشت پناہی مانگوں


زیب دیتا ہے مرے تن پہ فقیری کا لباس
کسی دربار سے کیا خلعت جاہی مانگوں


میری وحشت کو یہ صحرا کی مسافت کم ہے
سیر کے واسطے کچھ اور فضا ہی مانگوں


تیرگی میں ابھی اتنا تو نہیں ڈوبا ہوں
کہ نئے دن کے خزانے سے بھی سیاہی مانگوں