Arman Najmi

ارمان نجمی

ارمان نجمی کی غزل

    بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے

    بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے یہاں لیکن گھروں کے بھی اجڑنے کی حکایت ہے سپہ سالار کچھ لکھتا ہے تصویر ہزیمت میں مگر یہ تو عدو کے پاؤں پڑنے کی حکایت ہے کنیز بے نوا نے ایک شہزادے کو چاہا کیوں محبت زندہ دیواروں میں گڑنے کی حکایت ہے کھلی آنکھیں تو کاندھوں پر کتابوں سے بھرا ...

    مزید پڑھیے

    جانے کس عالم احساس میں کھوئے ہوئے ہیں

    جانے کس عالم احساس میں کھوئے ہوئے ہیں ہم ہیں وہ لوگ کہ جاگے ہیں نہ سوئے ہوئے ہیں اپنے انجام کا دیکھے گا تماشا کبھی وہ جیتے جی ہم تو ابھی سے اسے روئے ہوئے ہیں داغ مٹتا نہیں کچھ اور نمایاں ہوا ہے اپنے ہاتھ آپ نے کس چیز سے دھوئے ہوئے ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ مکافات عمل کاٹتے ...

    مزید پڑھیے

    نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے

    نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے قریب و دور مرے بخت کی سیاہی ہے افق کے پار کبھی دیکھنے نہیں دیتی شریک راہ امیدوں کی کم نگاہی ہے بھرا پڑا تھا گھر اس کا خوشی کے سیلے سے یہ کیا ہوا کہ وہ اب راستے کا راہی ہے وہ ذہن ہو تو حریفوں کی چال بھی سیکھیں ہمارے پاس فقط عذر بے گناہی ہے اکھڑتے ...

    مزید پڑھیے

    نارسائی کی ہنسی خود ہی اڑاتے کیوں ہو

    نارسائی کی ہنسی خود ہی اڑاتے کیوں ہو ہاتھ خالی ہے تو بازار میں آتے کیوں ہو اب بھی چاہو تو جمی برف پگھل سکتی ہے اختلافات کو بنیاد بناتے کیوں ہو وہ سمجھنے پہ ہی آمادہ نہیں ہے تو اسے اپنے احساس کا آئینہ دکھاتے کیوں ہو کل ترس جاؤ گے آنکھوں کی شناسائی کو خود کو لفظوں کے لبادے میں ...

    مزید پڑھیے

    نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے

    نہ حرف شوق نہ طرز بیاں سے آتی ہے سپردگی کی صدا جسم و جاں سے آتی ہے کوئی ستارہ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا مجھے خود اپنی خبر آسماں سے آتی ہے کسی دکان سے ملتی نہیں ہے گرمیٔ شوق یہ آنچ وہ ہے جو سوز نہاں سے آتی ہے کھلا نہیں ہے وہ مجھ پر کسی بھی پہلو سے نہیں کی گونج ابھی اس کی ہاں سے آتی ...

    مزید پڑھیے

    جو گم گشتہ ہے اس کی ذات کیا ہے

    جو گم گشتہ ہے اس کی ذات کیا ہے غریب شہر کی اوقات کیا ہے سروں پر سایۂ آفات کیا ہے جو کٹتی ہی نہیں وہ رات کیا ہے نہ ہونے اور ہونے کی حقیقت سوال نفی و اثبات کیا ہے جمی ہے گرد کی تہہ بستیوں پر ہوا کے ہاتھ میں سوغات کیا ہے حقارت میں بجھے کچھ تیر و نشتر مرے کشکول میں خیرات کیا ہے بجھا ...

    مزید پڑھیے

    بے نوائی نے مری حد سے گزر جانے دیا

    بے نوائی نے مری حد سے گزر جانے دیا وہ جو مجھ سے چاہتا تھا میں نے کر جانے دیا پھر کریدا اور جی بھر کر نمک پاشی بھی کی پہلے اس نے میرے دل کے زخم بھر جانے دیا روک کر رستہ بتا دیتے کہ خود کو جان لے تم نے کیسے اس کو خود سے بے خبر جانے دیا اب خطا کاری سے کوئی روکنے والا نہیں روح کی زندہ ...

    مزید پڑھیے

    دماغ و دل پہ ہو کیا اثر اندھیرے کا

    دماغ و دل پہ ہو کیا اثر اندھیرے کا کہ دیدہ ور بھی ہے اب ہم سفر اندھیرے کا دیار نور میں ہر سمت خاک اڑنے لگی وجود ہونے لگا معتبر اندھیرے کا یہ راستہ تو چراغوں سے جگمگاتا ہے ادھر سے ہونے لگا کیوں گزر اندھیرے کا اب اس کے پھولنے پھلنے میں دن ہی کتنے ہیں جڑیں جما تو چکا ہے شجر اندھیرے ...

    مزید پڑھیے

    گزرتے دن کے دکھوں کا پتہ تو دیتا تھا

    گزرتے دن کے دکھوں کا پتہ تو دیتا تھا وہ شام ڈھلنے سے پہلے صدا تو دیتا تھا ہجوم کار میں پل بھر بھی اک بہانے سے وہ اپنے قرب کا جادو جگا تو دیتا تھا شریک راہ تھا وہ ہم سفر نہ تھا پھر بھی قدم قدم پہ مجھے حوصلہ تو دیتا تھا مجھی کو ملتی نہ تھی فرصت پذیرائی وہ اپنے سچ کا مجھے آئنہ تو ...

    مزید پڑھیے

    پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر

    پچھلی رفاقتوں کا نہ اتنا ملال کر اپنی شکستگی کا بھی تھوڑا خیال کر ڈس لے کہیں تمہیں کو نہ موقع نکال کر رکھو نہ آستیں میں کوئی سانپ پال کر شرمندگی کا زخم نہ گہرا لگے کہیں کچھ اس قدر دراز نہ دست سوال کر میری طرح نہ تو بھی گھٹن کا شکار ہو خود اپنی خواہشوں کو نہ یوں پائمال کر جو آپ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3