تباہی کا بہانہ ڈھونڈتی ہے
تباہی کا بہانہ ڈھونڈتی ہے ہوا ایڑی کے بل پھر گھومتی ہے اندھیرے سرمئی بادل ہیں ایسے زمیں اب آسماں کو ڈھونڈھتی ہے خموشی مرتعش ہونے لگی ہے کہیں بربط کی لے کیوں گونجتی ہے
معاصر پاکستانی خواتین شاعرات میں نمایاں، اردو کی استاد
Prominent figure among the contemporary women poets in Pakistan; also a teacher of Urdu
تباہی کا بہانہ ڈھونڈتی ہے ہوا ایڑی کے بل پھر گھومتی ہے اندھیرے سرمئی بادل ہیں ایسے زمیں اب آسماں کو ڈھونڈھتی ہے خموشی مرتعش ہونے لگی ہے کہیں بربط کی لے کیوں گونجتی ہے
طعن طنز آوازے سن رہے ہو اب بولو بولنے کے خمیازے سن رہے ہو اب بولو بات بس ذرا سی تھی بات ہی تو کی تم سے شہر بھر کے آوازے سن رہے ہو اب بولو سر پھری ہواؤں میں گھر سے کیوں نکل آئے بج رہے ہیں دروازے سن رہے ہو اب بولو جس کے جی میں جو آئے مشورے تو دے گا نا مشورے نئے تازے سن رہے ہو اب ...
وہ عادت ہے تو عادت سے کنارے ہو بھی سکتا ہے مگر اس ساری کوشش میں خسارہ ہو بھی سکتا ہے رہیں گے ساتھ پھر بھی ہم محبت مر گئی کیا غم کہ مصنوعی تنفس پر گزارا ہو بھی سکتا ہے اگر آنکھیں نہ بھر آئیں تو دل مٹھی میں آئے گا ہوا ہے حال جو میرا تمہارا ہو بھی سکتا ہے کھلی آنکھوں میں ٹھہرا خواب ...
دسمبر کے دالان میں اس چمکتی ہوئی آفتابی تمازت کو روح میں اتارے کرن در کرن تم کسے دیکھتی ہو خنک سی ہواؤں کی ان سرسراتی ہوئی انگلیوں میں جو اک لمس محسوس کرنے لگی ہو وہ کیا ہے کوئی واہمہ ہے؟ حقیقت ہے کوئی؟ کہ اک خواب ہے جو سر راہ آ کر ملا ہے شب و روز مصروفیت میں گھری ہو کوئی کام بھی ...
کب تلک گیہوں ککڑی پیاز اور مسور ہی کھاتے رہیں اپنے اجداد کے سب گناہوں کا بوجھ اب اٹھاتے رہیں ہم جو قابیل قاتل کی اولاد ہیں جس طرح کے بھی ہیں کس کی ایجاد ہیں ہم نے چکھا نہیں کوئی جنت کا پھل ہم نے دیکھا نہیں اپنے اجداد کا کوئی آج اور نہ کل کیوں اتار گئی ہم پہ ایسی ہی بھوک اور ...
ایک دن منایا جانا چاہیے میرا بھی سانس کی بے آواز لہروں پر تیرتی زندگی کے ساتھ بے نشان ساحلوں پر بکھری سیپیوں کے ہم راہ سرد موسموں میں کوچ کر جانے والے پرندوں کے سنگ انجان سر زمینوں پر کسی ان دیکھے رنگ کے پھول کی پتیوں سے پھوٹتی پر اسرار خوشبو کے بازووں میں تم مناتے ہو مدر ڈے اور ...
اب بھی آیتوں کی طرح اترتے ہیں اور دل ان کی ترتیل کرتا رہتا ہے کتاب مکمل ہی نہیں ہوتی
ہے ساون کی پہلی جھڑی اور زمیں ان گنت آنسوؤں سے دھلی ہے مگر ایک منظر بھی نکھرا نہیں ہے پرندوں کی چہکار میں بھی اداسی گھلی ہے مجھے کیا ضرورت ہے کلیوں کے چہرے پہ مسکان کی چاندنی میں کھلاؤں ہتھیلی پہ آکاش کی آرزو کے ستارے سجاؤں مجھے کیا پڑی ہے بلاؤں بہاروں کے مطرب سکھاؤں انہیں ایک ...