ہابیل چپ ہے

کب تلک گیہوں ککڑی
پیاز اور مسور ہی کھاتے رہیں
اپنے اجداد کے
سب گناہوں کا بوجھ
اب اٹھاتے رہیں
ہم جو قابیل قاتل کی
اولاد ہیں
جس طرح کے بھی ہیں
کس کی ایجاد ہیں
ہم نے چکھا نہیں
کوئی جنت کا پھل
ہم نے دیکھا نہیں
اپنے اجداد کا کوئی آج اور نہ کل
کیوں اتار گئی
ہم پہ ایسی ہی بھوک اور پیاس
انگنت ہم نے اشجار بھی ہیں اگائے ہوئے
پھر بھی اجداد پر جو اتاری گئی دھوپ
ہم بھی اسی میں جلائے گئے
جسم کا تو ہمارا بھی سایہ
اور اجداد کا بھی
رہا ہے ہمیشہ ہی محو سجود
پھر بھی ہم پر اور ان پر
لگائی گئی ہیں یہ کیسی قیود
کس کی قربانی کو شرف بخشا گیا
اور وراثت کا حق دار ٹھہرا ہے کون
ہم ہی قابیل کی کل کمائی ہیں کیوں
اک تماشا ہیں
تو پھر تماشائی کیوں
وہ تو اجداد تھے
جو اتارے گئے تھے فلک سے
مگر تا قیامت
زمیں پر ہماری یہ رسوائی کیوں