مجھے کیا پڑی ہے
ہے ساون کی پہلی جھڑی اور زمیں ان گنت آنسوؤں سے دھلی ہے
مگر ایک منظر بھی نکھرا نہیں ہے
پرندوں کی چہکار میں بھی اداسی گھلی ہے
مجھے کیا ضرورت ہے
کلیوں کے چہرے پہ مسکان کی چاندنی
میں کھلاؤں
ہتھیلی پہ آکاش کی
آرزو کے ستارے سجاؤں
مجھے کیا پڑی ہے
بلاؤں بہاروں کے مطرب
سکھاؤں انہیں
ایک انجان میٹھی سریلی سی دھن
جس کی لے پر
فضاؤں میں خوشیوں کے گھنگرو
بجیں یوں چھنا چھن
کہ ناچے مرا من
مرا من بھلا فکر اس کی کرے کیوں
یہاں وے نہیں ہے
وے چاہے کہیں ہے
یہ کلیاں یہ آکاش
مطرب بہاروں کے سب جانتے ہیں
ہوائیں پرندے اسے مانتے ہیں
مجھے بھی یقیں ہے
اسے لوٹنا ہے
اسی کے تصرف میں
خوشیوں کے لمحہ
اسی کے تصرف میں ہر اک گھڑی ہے
اداسی کہیں راستے میں کھڑی ہے
مجھے کیا پڑی ہے