اب اپنے دیدہ و دل کا بھی اعتبار نہیں
اب اپنے دیدہ و دل کا بھی اعتبار نہیں اسی کو پیار کیا جس کے دل میں پیار نہیں نہیں کہ مجھ کو طبیعت پہ اختیار نہیں ہر اک جام سے پی لوں وہ بادہ خوار نہیں ہر ایک گام پہ کانٹوں کی ہیں کمیں گاہیں شباب آہ شگوفوں کی رہ گزار نہیں بھری ہوئی ہے وہ کام و دہن میں تلخی زیست کہ لب پہ جام محبت بھی ...