سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا مجرم کو خطا سے پہلے


اشک آنکھوں میں ہیں ہونٹوں پہ بکا سے پہلے
قافلۂ غم کا چلا بانگ درا سے پہلے


یہ تو سچ ہے کہ تجھے ترک جفا کا حق ہے
ہاں مگر پونچھ تو لے اہل وفا سے پہلے


اڑ گیا جیسے یکایک مرے شانوں پر سے
وہ جو اک بوجھ تھا تسلیم خطا سے پہلے


ہاں یہی دل جو کسی کا ہے اب آئینۂ حسن
ایک پتھر تھا محبت کی جلا سے پہلے


آنکھ جھپکا بھی تو دے دل کو چرانے والے
اک تبسم نگہ ہوشربا سے پہلے


لذت‌ زیست کوئی اس کے مقابل کی نہیں
وہ جو اک کیف سا طاری ہے خطا سے پہلے


ابتدا ہی سے نہ دے زیست مجھے درس اس کا
اور بھی باب تو ہیں باب رضا سے پہلے


در مے خانہ سے آتی ہے صلائے‌ تازہ
آج سیراب کیے جائیں گے پیاسے پہلے


راز مے نوشی ملاؔ ہوا افشا ورنہ
کیا وہ مد مست نہ تھا لغزش پا سے پہلے