Amaan Abbas

امان عباس

امان عباس کی غزل

    مجھ سے تھوڑا سا بھی بیزار نہیں ہو سکتی

    مجھ سے تھوڑا سا بھی بیزار نہیں ہو سکتی زندگی میری طرف دار نہیں ہو سکتی کب تلک اور چمکنا ہے ستاروں کو وہاں کیا یہاں پر کبھی بوچھار نہیں ہو سکتی دین کو غیب کی زنجیر سے جکڑے رہنا کیونکہ دنیا تو گرفتار نہیں ہو سکتی نئے سیاروں کے ملنے پہ خوشی ہوتی ہے یہ زمیں تو مرا گھر بار نہیں ہو ...

    مزید پڑھیے

    بکھرے پڑے تھے ہم ہمیں یکجا نہ کر سکا

    بکھرے پڑے تھے ہم ہمیں یکجا نہ کر سکا کیسا خدا تھا کوئی کرشمہ نہ کر سکا ٹوٹا تھا ایک خواب لڑکپن میں اس کے بعد تا عمر میں کوئی بھی تمنا نہ کر سکا اے آسمان تف ہے تری وسعتوں پہ تف اک خطہ اس زمین پہ سایہ نہ کر سکا تو بھی تو میرے رنگ میں آیا نہ عمر بھر میں بھی تو اپنے آپ کو تجھ سا نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    روح و بدن کی ناہمواری بڑھتی جاتی ہے

    روح و بدن کی ناہمواری بڑھتی جاتی ہے دنیا میں آ کر دشواری بڑھتی جاتی ہے وقت سے صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ نسل آدم کی مکاری بڑھتی جاتی ہے جھگڑا کم نہیں ہوتا ہے کفر و اسلام کے بیچ اللہ اور ابلیس کی یاری بڑھتی جاتی ہے جتنا زیادہ بڑھتا ہے باہر تعمیری کام اندر اتنی ہی مسماری ...

    مزید پڑھیے

    وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو

    وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو خدا نے پہلے بھی آدم سے کچھ بنایا ہی ہو اتر نہ پایا ہو وہ جسم و روح میں اک ساتھ تلاش کرنے وہ حالانکہ مجھ کو آیا ہی ہو لحاظ جسم رکھے روح کس لیے آخر کہ جسم جس نے فقط روح کو ستایا ہی ہو بدل گئے ہوں مفاہیم آنسوؤں کہ مرے کسی سے اس نے مرا ترجمہ ...

    مزید پڑھیے

    اسی لیے تو نہیں کٹتی رات آدمی کی

    اسی لیے تو نہیں کٹتی رات آدمی کی خدا کی ذات سے مشکل ہے ذات آدمی کی نئے خیال کی باقی کہیں جگہ نہ رہے وسیع اتنی نہ ہو کائنات آدمی کی خدا کا بھی کوئی شاید سراغ مل جائے سمجھ لی جائے اگر نفسیات آدمی کی خدا نے بیچ میں ایسا فساد برپا کیا ادھوری رہ گئی دنیا سے بات آدمی کی المیہ صرف یہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ مرے شانہ بہ شانہ بھی تو ہو سکتا ہے

    وہ مرے شانہ بہ شانہ بھی تو ہو سکتا ہے یہ سفر میرا سہانا بھی تو ہو سکتا ہے یہ ضروری تو نہیں قصد سفر منزل ہو مدعا خاک اڑانا بھی تو ہو سکتا ہے اتنی شدت سے نہ کر یاد مرے دل اس کو کہ ابھی اس کو بھلانا بھی تو ہو سکتا ہے جنگ میں سب کہاں شمشیر زنی کرتے ہیں کام لاشوں کو اٹھانا بھی تو ہو ...

    مزید پڑھیے

    ہے کفر کی آغوش میں ایمان ہمارا

    ہے کفر کی آغوش میں ایمان ہمارا دنیا نے بہت کر دیا نقصان ہمارا کس طرح سلجھ پائے گا بحران ہمارا کل تیس سپاروں کا ہے قرآن ہمارا صیاد انہیں قید کے آداب سکھا دے بازار نہ ہو جائے یہ زندان ہمارا غالبؔ کی ہوئی جس سے بہت دیر لڑائی یاں دوست ہوا ہے وہی رضوان ہمارا کیا فرق پڑے گا جو نکل ...

    مزید پڑھیے

    لفظوں کہ وسیلے سے بیاں ہونے سے پہلے

    لفظوں کہ وسیلے سے بیاں ہونے سے پہلے آسان تھا یہ کام گراں ہونے سے پہلے تخلیق نے چھینا ہے مرا حسن بھی مجھ سے اک راز تھا میں میرے عیاں ہونے سے پہلے کس طرح کی بینائی تھی ان آنکھوں میں جانے کچھ بھی نہ دکھا جن کو دھواں ہونے سے پہلے سوچا تو بہت پر کوئی معنی نہیں نکلے کیا میری نہیں تھی ...

    مزید پڑھیے