مجھ سے تھوڑا سا بھی بیزار نہیں ہو سکتی

مجھ سے تھوڑا سا بھی بیزار نہیں ہو سکتی
زندگی میری طرف دار نہیں ہو سکتی


کب تلک اور چمکنا ہے ستاروں کو وہاں
کیا یہاں پر کبھی بوچھار نہیں ہو سکتی


دین کو غیب کی زنجیر سے جکڑے رہنا
کیونکہ دنیا تو گرفتار نہیں ہو سکتی


نئے سیاروں کے ملنے پہ خوشی ہوتی ہے
یہ زمیں تو مرا گھر بار نہیں ہو سکتی


جنگ درپیش اک ایسی ہے مجھے جس کے لیے
امت مسلمہ تیار نہیں ہو سکتی


ایسی بارش سے مرا جسم بہل سکتا ہے
پر مری روح تو سرشار نہیں ہو سکتی


ایک پیغام کہ بھجوانے میں اتنے وقفے
کیا یہی بات لگاتار نہیں ہو سکتی