روح و بدن کی ناہمواری بڑھتی جاتی ہے
روح و بدن کی ناہمواری بڑھتی جاتی ہے
دنیا میں آ کر دشواری بڑھتی جاتی ہے
وقت سے صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ
نسل آدم کی مکاری بڑھتی جاتی ہے
جھگڑا کم نہیں ہوتا ہے کفر و اسلام کے بیچ
اللہ اور ابلیس کی یاری بڑھتی جاتی ہے
جتنا زیادہ بڑھتا ہے باہر تعمیری کام
اندر اتنی ہی مسماری بڑھتی جاتی ہے
ختم ہوا جاتا ہے دخل دل سب کاموں سے
اور دنیا کی حصہ داری بڑھتی جاتی ہے
بندر سے انسان بنے تھے اب انسان سے کیا
روزانہ یہ فکر ہماری بڑھتی جاتی ہے
آدمی ہوتے جاتے ہیں سب پاگل پن کا شکار
اور مشینوں کی ہشیاری بڑھتی جاتی ہے