وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو
وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو
خدا نے پہلے بھی آدم سے کچھ بنایا ہی ہو
اتر نہ پایا ہو وہ جسم و روح میں اک ساتھ
تلاش کرنے وہ حالانکہ مجھ کو آیا ہی ہو
لحاظ جسم رکھے روح کس لیے آخر
کہ جسم جس نے فقط روح کو ستایا ہی ہو
بدل گئے ہوں مفاہیم آنسوؤں کہ مرے
کسی سے اس نے مرا ترجمہ کرایا ہی ہو
پٹارا کھول گناہوں کا اپنے دیکھ ذرا
کہ دل کسی کا کبھی کیا پتا دکھایا ہی ہو
یہ کوئی اور ہو تجھ سا ترے بدن جیسا
یہ تو نہ ہو کے ترا جسم دار سایہ ہی ہو
میں سو رہا ہوں کہ اپنا کوئی سراغ ملے
وہ خواب میں مجھے شاید جگانے آیا ہی ہو
امانؔ شور تھا تم نے سنا نہیں ہوگا
جب آ رہے ہو کسی نے تمہیں بلایا ہی ہو