بکھرے پڑے تھے ہم ہمیں یکجا نہ کر سکا
بکھرے پڑے تھے ہم ہمیں یکجا نہ کر سکا
کیسا خدا تھا کوئی کرشمہ نہ کر سکا
ٹوٹا تھا ایک خواب لڑکپن میں اس کے بعد
تا عمر میں کوئی بھی تمنا نہ کر سکا
اے آسمان تف ہے تری وسعتوں پہ تف
اک خطہ اس زمین پہ سایہ نہ کر سکا
تو بھی تو میرے رنگ میں آیا نہ عمر بھر
میں بھی تو اپنے آپ کو تجھ سا نہ کر سکا
وہ کام آج قشقہ لگانے سے ہو گیا
مولانا صاحب کا جو عمامہ نہ کر سکا
دیوان میرؔ و جونؔ نے جو کام کر دیا
دنیا کا کوئی سا بھی صحیفہ نہ کر سکا