سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی
سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی کہیں لے نہ ڈوبے مجھے بھی اداسی شب و روز چلتی ہے پہلو سے لگ کر گلے پڑ گئی ایک ضدی اداسی فضاؤں کی رنگت نکھرنے لگی ہے ہوئی شام پھر دل میں لوٹی اداسی ذرا چاند کیا آیا میری طرف کو ستاروں نے جل بھن کے اوڑھی اداسی شبستاں میں غم کی نہ شمعیں جلاؤ کہیں ...