Alok Mishra

آلوک مشرا

نئی نسل کے نوجوان شاعر

Popular poet of the younger generation

آلوک مشرا کی غزل

    سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی

    سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی کہیں لے نہ ڈوبے مجھے بھی اداسی شب و روز چلتی ہے پہلو سے لگ کر گلے پڑ گئی ایک ضدی اداسی فضاؤں کی رنگت نکھرنے لگی ہے ہوئی شام پھر دل میں لوٹی اداسی ذرا چاند کیا آیا میری طرف کو ستاروں نے جل بھن کے اوڑھی اداسی شبستاں میں غم کی نہ شمعیں جلاؤ کہیں ...

    مزید پڑھیے

    سانس لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے

    سانس لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے زہر آلود دھواں پھیلا ہے کس نے صحرا میں مری آنکھوں کے ایک دریا کو رواں رکھا ہے کوئی آواز نہ جنبش کوئی میرا ہونا بھی کوئی ہونا ہے بات کچھ بھی نہ کروں گا اب کے رو بہ رو اس کے فقط رونا ہے زخم دھوئے ہیں یہاں پر کس نے سارے دریا میں لہو پھیلا ہے اتنا گہرا ہے ...

    مزید پڑھیے

    چلتے ہیں کہ اب صبر بھی اتنا نہیں رکھتے

    چلتے ہیں کہ اب صبر بھی اتنا نہیں رکھتے اک اور نئے دکھ کا ارادہ نہیں رکھتے بس ریت سی اڑتی ہے اب اس راہ گزر پر جو پیڑ بھی ملتے ہیں وہ سایہ نہیں کرتے کس طور سے آخر انہیں تصویر کریں ہم جو خواب ازل سے کوئی چہرہ نہیں رکھتے اک بار بچھڑ جائیں تو ڈھونڈھے نہ ملیں گے ہم رہ میں کہیں نقش کف ...

    مزید پڑھیے

    پھر تری یادوں کی پھنکاروں کے بیچ

    پھر تری یادوں کی پھنکاروں کے بیچ نیم جاں ہے رات یلغاروں کے بیچ اونگھتا رہتا ہے اکثر ماہتاب رات بھر ہم چند بے داروں کے بیچ گونجتی رہتی ہے مجھ میں دم بہ دم چیخ جو ابھری نہ کہساروں کے بیچ دیکھتا آخر میں اس کو کس طرح روشنی کی تیز بوچھاروں کے بیچ کھو ہی جاتا ہوں ترے قصے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس سیہ رات میں کوئی تو سہارا مل جائے

    اس سیہ رات میں کوئی تو سہارا مل جائے اپنے اندر ہی کوئی سایہ چمکتا مل جائے اس کو اک دکھ سے بچانا بھی ضروری ہے بہت بس کسی طرح وہ اک بار دوبارہ مل جائے سوچتا ہوں کہ اب اس گھر میں مرا ہے ہی کیا ہاں اگر رونے کی خاطر کوئی کونا مل جائے شہر کا شہر ہی ویران پڑا ہے کیسا کوئی بچہ ہی کہیں شور ...

    مزید پڑھیے

    میرے ہی آس پاس ہو تم بھی

    میرے ہی آس پاس ہو تم بھی ان دنوں کچھ اداس ہو تم بھی بارہا بات جینے مرنے کی ایک بکھری سی آس ہو تم بھی سیل نغمہ پہ اتنی حیرت کیوں اس نمی سے شناس ہو تم بھی میں بھی ڈوبا ہوں آسمانوں میں خواب میں محو یاس ہو تم بھی میں ہوں ٹوٹا سا پیمانہ ایک خالی گلاس ہو تم بھی گر میں دکھ سے سجا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک شجر پہ پرندے سمٹ کے بیٹھے ہیں

    ہر اک شجر پہ پرندے سمٹ کے بیٹھے ہیں ہوائے سرد کے جھونکے بہت نکیلے ہیں کہاں سنبھلتا ہے جلدی کسی کی موت سے دل ہاں ٹھیک ٹھاک ہیں پہلے سے تھوڑے اچھے ہیں دھواں دھواں سی ہے فہرست رفتگاں لیکن دو ایک چہرے ہیں ویسے ہی جگمگاتے ہیں تجھے خبر بھی ہے اے دوست تیرے مرہم سے کچھ ایک زخم جو اندر ...

    مزید پڑھیے

    جانے کس بات سے دکھا ہے بہت

    جانے کس بات سے دکھا ہے بہت دل کئی روز سے خفا ہے بہت سب ستارے دلاسہ دیتے ہیں چاند راتوں کو چیختا ہے بہت پھر وہی رات مجھ میں ٹھہری ہے پھر سماعت میں شور سا ہے بہت تم زمانے کی بات کرتے ہو میرا مجھ سے بھی فاصلہ ہے بہت اس کی دکھتی نسیں نہ پھٹ جائیں دل مسلسل یہ سوچتا ہے بہت واسطہ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا

    بجھتی آنکھوں میں ترے خواب کا بوسہ رکھا رات پھر ہم نے اندھیروں میں اجالا رکھا زخم سینہ میں تو آنکھوں میں سمندر ٹھہرا درد کو میں نے مجھے درد نے زندہ رکھا ساتھ رہتا تھا مگر ساتھ نہیں تھا میرے اس کی قربت نے بھی اکثر مجھے تنہا رکھا وقت کے ساتھ تجھے بھول ہی جاتا لیکن اک ہرے خط نے مرے ...

    مزید پڑھیے

    دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا

    دل پر کسی کی بات کا ایسا اثر نہ تھا پہلے میں اس طرح سے کبھی در بدر نہ تھا چاروں طرف تھے دھوپ کے جنگل ہرے بھرے صحرا میں کوئی میرے علاوہ شجر نہ تھا تارے بھی شب کی جھیل میں غرقاب ہو گئے میری اداسیوں کا کوئی ہم سفر نہ تھا فرقت کی آنچ تھی نہ تری یاد کی تپش دل سرد پڑ رہا تھا کہیں اک شرر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3