Alok Mishra

آلوک مشرا

نئی نسل کے نوجوان شاعر

Popular poet of the younger generation

آلوک مشرا کی غزل

    جنوں کا رقص بھی کب تک کروں گا

    جنوں کا رقص بھی کب تک کروں گا کہیں میں بھی ٹھکانے جا لگوں گا ہوا جاتا ہے تن یہ بوجھ مجھ پر مگر یہ دکھ بھی اب کس سے کہوں گا بھلا دوں کیوں نہ میں اس چپ کو آخر ذرا سے زخم کو کتنا کروں گا خدا کے رنگ بھی سب کھل گئے ہیں گناہ اپنے بھی میں کیونکر گنوں گا تری خاموشیوں کی دھوپ میں بھی تری ...

    مزید پڑھیے

    پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں

    پھول سے زخموں کا انبار سنبھالے ہوئے ہیں غم کی پونجی مرے اشعار سنبھالے ہوئے ہیں ہم سے پوچھو نہ شب و روز کا عالم سوچو کیسے دھڑکن کی یہ رفتار سنبھالے ہوئے ہیں گھر بھی بازار کی مانند رکھے ہیں اپنے وہ جو بازار کا معیار سنبھالے ہوئے ہیں ایک ناول ہیں کبھی پڑھ تو ہمیں فرصت میں تن تنہا ...

    مزید پڑھیے

    وہ بے اثر تھا مسلسل دلیل کرتے ہوئے

    وہ بے اثر تھا مسلسل دلیل کرتے ہوئے میں مطمئن تھا غزل کو وکیل کرتے ہوئے وہ میرے زخم کو ناسور کر گئے آخر میں پر امید تھا جن سے اپیل کرتے ہوئے عجیب خواب تھا آنکھوں میں خون چھوڑ گیا کہ نیند گزری ہے مجھ کو ذلیل کرتے ہوئے سبب ہے کیا کہ میں سیراب ہوں سر صحرا جدا ہوا تھا وہ آنکھوں کو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا

    آنکھوں کا پورا شہر ہی سیلاب کر گیا یہ کون مجھ میں نظم کی صورت اتر گیا جنگل میں تیری یاد کے جگنوں چمک اٹھے میداں سیاہ شب کا اجالوں سے بھر گیا ورنہ سیاہ رات میں جھلسا ہوا تھا میں یہ تو تمہاری دھوپ میں کچھ کچھ نکھر گیا جھوما تھرکتے ناچتے جوڑوں میں کچھ گھڑی دل پھر نہ جانے کیسی ...

    مزید پڑھیے

    جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے

    جذب کچھ تتلیوں کے پر میں ہے کیسی خوشبو سی اس کلر میں ہے آنے والا ہے کوئی صحرا کیا گرد ہی گرد رہ گزر میں ہے جب سے دیکھا ہے خواب میں اس کو دل مسلسل کسی سفر میں ہے چھو کے گاڑی بغل سے کیا گزری بے خیالی سی اک نظر میں ہے میں بھی بکھرا ہوا ہوں اپنوں میں وہ بھی تنہا سا اپنے گھر میں ...

    مزید پڑھیے

    ہم مسلسل اک بیاں دیتے ہوئے

    ہم مسلسل اک بیاں دیتے ہوئے تھک چکے ہیں امتحاں دیتے ہوئے بے زباں الفاظ کاغذ پر یہاں گونگی یادوں کو زباں دیتے ہوئے ہو گئے غرقاب اس کی آنکھ میں خواہشوں کو ہم مکاں دیتے ہوئے پھر ابھر آیا تری یادوں کا چاند اجلا اجلا سا دھواں دیتے ہوئے لطف جلنے کا الگ ہے ہجر میں زخم میرے امتحاں ...

    مزید پڑھیے

    لطف آنے لگا بکھرنے میں

    لطف آنے لگا بکھرنے میں ایک غم کو ہزار کرنے میں بس ذرا سا پھسل گئے تھے ہم اک بگولے پہ پاؤں دھرنے میں کتنی آنکھوں سے بھر گئی آنکھیں تیرے خوابوں سے پھر گزرنے میں میں نے سوچا مدد کرو گے تم کم نصیبی کے گھاؤ بھرنے میں بجھتے جاتے ہیں میرے لوگ یہاں روشنی کو بحال کرنے میں کس قدر ہاتھ ...

    مزید پڑھیے

    لبالب دکھ سے تھا قصہ ہمارا

    لبالب دکھ سے تھا قصہ ہمارا مگر چھلکا نہیں دریا ہمارا اثر اس پر تو کب ہونا تھا لیکن تماشا بن گیا رونا ہمارا مگر آنے سے پہلے سوچ لو تم بہت ویران ہے رستہ ہمارا عجب تپتی ہوئی مٹی ہے اپنی ابلتا رہتا ہے دریا ہمارا تمہارے حق میں بھی اچھا نہیں ہے تمہارے غم میں یوں جینا ہمارا اسی کو ...

    مزید پڑھیے

    اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے

    اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے یاد آتا بھی نہیں خواب وہ بکھرا کیسے کتنے سایوں سے بھری ہے یہ حویلی دل کی ایسی بھگدڑ میں کوئی شخص ٹھہرتا کیسے پھول زخموں کے یہاں اور بھی چن لوں لیکن اپنا دامن میں کروں اور کشادہ کیسے دکھ کے سیلاب میں ڈوبا تھا وہ خود ہی اتنا میری آنکھو تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    خاک ہو کر بھی کب مٹوں گا میں

    خاک ہو کر بھی کب مٹوں گا میں پھول بن کر یہیں کھلوں گا میں تجھ کو آواز بھی میں کیوں دوں گا تیرا رستہ بھی کیوں تکوں گا میں اک پرانے سے زخم پر اب کے کوئی مرہم نیا رکھوں گا میں گھیر لیں گی یہ تتلیاں مجھ کو خوشبوئیں جیوں رہا کروں گا میں خود سے باہر تو کم نکلتا ہوں جی میں آیا تو پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3