ہر اک شجر پہ پرندے سمٹ کے بیٹھے ہیں
ہر اک شجر پہ پرندے سمٹ کے بیٹھے ہیں
ہوائے سرد کے جھونکے بہت نکیلے ہیں
کہاں سنبھلتا ہے جلدی کسی کی موت سے دل
ہاں ٹھیک ٹھاک ہیں پہلے سے تھوڑے اچھے ہیں
دھواں دھواں سی ہے فہرست رفتگاں لیکن
دو ایک چہرے ہیں ویسے ہی جگمگاتے ہیں
تجھے خبر بھی ہے اے دوست تیرے مرہم سے
کچھ ایک زخم جو اندر نئے سے بنتے ہیں
قدم قدم پہ نئے موڑ مڑنے والے لوگ
نہ جانے کیوں مجھے اب ٹھیک جان پڑتے ہیں
جدا ہوئے تو بہت دن گزر گئے لیکن
ہوائے تازہ کے جھونکوں سے اب بھی ڈرتے ہیں
کبھی تو خوب سسکتے ہیں بے طرح اور پھر
خیال مرگ سے یک دم چہکنے لگتے ہیں