چلتے ہیں کہ اب صبر بھی اتنا نہیں رکھتے

چلتے ہیں کہ اب صبر بھی اتنا نہیں رکھتے
اک اور نئے دکھ کا ارادہ نہیں رکھتے


بس ریت سی اڑتی ہے اب اس راہ گزر پر
جو پیڑ بھی ملتے ہیں وہ سایہ نہیں کرتے


کس طور سے آخر انہیں تصویر کریں ہم
جو خواب ازل سے کوئی چہرہ نہیں رکھتے


اک بار بچھڑ جائیں تو ڈھونڈھے نہ ملیں گے
ہم رہ میں کہیں نقش کف پا نہیں رکھتے


پھر صلح بھی تم بن تو کہاں ہونی تھی خود سے
سو ربط بھی اب خود سے زیادہ نہیں رکھتے


اس موڑ پہ روٹھے ہو تم اے دوست کہ جس پر
دشمن بھی کوئی رنج پرانا نہیں رکھتے


کیا سوچ کے زندہ ہیں ترے دشت میں یہ لوگ
آنکھوں میں جو اک خواب کا ٹکڑا نہیں رکھتے