میرے ہی آس پاس ہو تم بھی

میرے ہی آس پاس ہو تم بھی
ان دنوں کچھ اداس ہو تم بھی


بارہا بات جینے مرنے کی
ایک بکھری سی آس ہو تم بھی


سیل نغمہ پہ اتنی حیرت کیوں
اس نمی سے شناس ہو تم بھی


میں بھی ڈوبا ہوں آسمانوں میں
خواب میں محو یاس ہو تم بھی


میں ہوں ٹوٹا سا پیمانہ
ایک خالی گلاس ہو تم بھی


گر میں دکھ سے سجا ہوا ہوں تو
رنج سے خوش لباس ہو تم بھی


اپنی فطرت کا میں بھی مارا ہوں
اپنی عادت کے داس ہو تم بھی


میری مٹی بھی ریت کی سی ہے
اور صحرا کی پیاس ہو تم بھی