سانس لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے
سانس لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے
زہر آلود دھواں پھیلا ہے
کس نے صحرا میں مری آنکھوں کے
ایک دریا کو رواں رکھا ہے
کوئی آواز نہ جنبش کوئی
میرا ہونا بھی کوئی ہونا ہے
بات کچھ بھی نہ کروں گا اب کے
رو بہ رو اس کے فقط رونا ہے
زخم دھوئے ہیں یہاں پر کس نے
سارے دریا میں لہو پھیلا ہے
اتنا گہرا ہے اندھیرا مجھ میں
پاؤں رکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
شخص ہنستا ہے جو آئینے میں
یاد پڑتا ہے کہیں دیکھا ہے
چاٹ جائے نہ مجھے دیمک سا
غم جو سینہ سے مرے لپٹا ہے
جانے کیا کھونا ہے اب بھی مجھ کو
پھر سے کیوں جی کو وہی خدشہ ہے